دہلی کے ریاستی انتخابات کے دن سے ہی ایگزٹ پولز کے ذریعے عوامی رجحانات کو سامنے رکھ کر کامیابی یا ناکامی کے اندازے لگائے جارہے تھے۔
ایگزٹ پولز کے مطابق اگر حتمی طور پر اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی (آپ) کو کامیابی مل جائے تب بھی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت والی مرکزی حکومت سے تعلقات کے لیے مجبور ہوسکتی ہے۔
بی جے پی متنازع شہریت (ترمیمی) 2020 قانون (سی اے اے) پر زور دے رہی ہے اور اس کے مطابق شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) کو نافذ کیا جائے۔ ان قوانین نے پورے ملک میں ہنگاموں اور عوامی احتجاج کو جنم دیا ہے۔
دہلی اسمبلی انتخابات سے بہت پہلے بی جے پی نے جارحانہ انداز سے انتخابی تشہیر کی شروعات کی تھی۔
اس کے باوجود عام آدمی پارٹی (آپ) کے لیے جیت ایک پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
کیجریوال نظریاتی طور پر مطمئن تھے اور انہوں نے نریندر مودی اور بی جے پی کے حامیوں سے مقابلہ کیا کیونکہ کیجریوال نے بہتر کارکرگی کا وعدہ کیا تھا۔
پانچ برسوں میں جب سے وہ اقتدار میں رہے تھے، انہوں نے بدعنوانی کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ دہلی کے شہریوں کو مفت بجلی اور پانی کی سربراہی کے لئے کچھ اہم وعدوں پر بھی عمل کیا تھا۔
کیجریوال نے محلہ کلینک بھی قائم کر رکھے تھے اور نجی اسپتالوں اور دیگر کو بھی مفت علاج فراہم کرنے پر مجبور کیا تھا۔ یہاں تک کہ لوگوں نے دارالحکومت میں مفت میں دل کے آپریشن بھی کروائے۔
بی جے پی کے پاس خاص کر دہلی کے تناظر میں انتخابی مہم کے دوران بہتر انداز میں کاموں کی کوئی لسٹ نہیں تھی۔ بی جے پی نے اپنے سابق پارٹی سربراہ اور ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ کو تک میدان میں اتارا۔
یہ ایک ایسی زہریلی مہم تھی، جو ملک بھر میں اس سے قبل نہیں دیکھی گئی۔
شاہین باغ میں خواتین اور طلبا کی جانب سے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہورہے مظاہروں پر بی جے پی کی مہم کے دوران امت شاہ نے اپنے پیروکاروں سے مطالبہ کیا کہ وہ ووٹنگ مشین کے بٹن کو اتنی سختی سے دبائیں کہ شاہین باغ میں بھی اس کی شدت محسوس کی جاسکے!
ان مظاہرین کی طرف اپنے واضح دشمنی کا اشارہ کرتے ہوئے (جو ایک حد تک قریبی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو تکلیف کا باعث بنا رہا تھا) مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر نے نام نہاد غداروں کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ انہیں گولی مار دی جائے۔
بی جے پی کے ایک اور رکن پارلیمنٹ پرویش ورما نے دعوی کیا کہ مظاہرین ہندؤں کے گھروں میں داخل ہوں گے اور ان کے ساتھ زیادتی کریں گے۔ وہ اس حقیقت سے بے بہرہ تھے کہ یہ وہ خواتین تھیں جو دھرنے میں شامل تھیں۔
اس پُرتشدد گفتگو سے حوصلہ پا کر دو لوگ شاہین باغ اور جامعہ نگر کے قریب پہنچے اور فائرنگ کی۔ اتفاق سے اس دوران کوئی ہلاک نہیں ہوا۔
اس نفرت انگیز باتوں کا مقصد ووٹرز کو فرقہ وارانہ خطوط پر پولرائز کرنا تھا۔ بی جے پی کی اس حکمت عملی یا بیانیے نے اس کے لئے متعدد مواقع پر موثر کردار بھی ادا کیا۔ پارٹی قیادت کے مطابق ایسا محسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
بہر حال سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں سڑکوں کو روکنے پر بہت سے لوگوں نے اپنی ناراضگی کا اظہار بھا کیا تھا اور مظاہرین کو ان کی جانب سے اشتعال انگیزی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔
بی جے پی اپنے ہی پیروکاروں کو کمانڈر بنانے میں کامیاب رہی جنہوں نے شدید کشمکش میں مبتلا ہوکر خواتین مظاہرین کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی دھمکی دی جس سے وہ پریشانی کا شکار تھے۔
شاہین باغ کے علاوہ بی جے پی نے 'آپ' کے دعووں کو غیر موثر بنانے کی کوشش کی کہ آپ نے دارالحکومت دہلی کے لیے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے بجائے آپ کو انتشار پسند اور کوئی ایسا شخص کہا جاتا تھا جس پر حکمرانی کا بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
کانگریس نے 2019 میں پارلیمنٹ کے انتخابات میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا، بیشتر 7 حلقوں میں دوسرے نمبر پر رہی۔
کانگریس نے دارالحکومت دہلی میں اچھے کام کرنے کے بارے میں 'آپ' کے دعووں کو بھی کچل دیا۔ اس کی بجائے کانگریس نے شیلا دیکشت کے دور حکومت کے تحت کیے گئے کاموں کو سہرایا ہے۔
اگرچہ کانگریس، بی جے پی کو چیلنج کرنے کے لئے سنجیدہ پوزیشن میں نہیں دکھائی دیتی ہے اور آہستہ آہستہ ان دونوں بیانیے یعنی پورا ملک بمقابلہ مختصر علاقہ (نیشنلزم بمقابلہ لوکلزم) میں دب گئی۔
تقریبا تمام سروے سے پتہ چلتا ہے کہ 'آپ' بڑے پیمانے پر کامیابی حاصل کرئے گی اور بی جے پی کو 'کچھ' حاصل ہوسکتا ہے۔ جب کہ کانگریس کو بڑے پیمانے پر 'لکڑی کے چمچوں' کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
بی جے پی ان ایگزٹ پولس سے متفق نہیں ہے اور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ انہیں 48 سیٹیں مل رہی ہیں اور وہ 70 سیٹوں والے دہلی اسمبلی میں حکومت بنائے گی۔
گزشتہ 8 فروری کو پولنگ ختم ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے رائے دہندگان کی تعداد کے حتمی اعداد و شمار جاری نہیں کیے۔ جس کے بعد یہ اطلاعات سامنے آئی ہے کہ پولنگ بوتھز کے دعوؤں کو سنجیدگی سے لیا جارہا ہے، اس سے قبل یہ فیصد 57 فیصد بتایا گیا تھا۔
اس کے ایک دن بعد جب آپ اور دیگر جماعتوں نے ووٹوں کی گنتی کے اعلان میں تاخیر کے بارے میں تعجب کرنا شروع کیا تو الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) نے اعلان کیا کہ رائے دہندگی میں کل ووٹ 62 فیصد سے زائد ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں نے شکوک و شبہات کے ساتھ دعوی کیا کہ ای سی آئی نے شام 5 بجے ووٹر ٹرن آؤٹ کو 50 فیصد سے 62 فیصد کردیا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ای وی ایم کی ہیرا پھیری ہوسکتی ہے- جو ہمیشہ سے شک کے عالم میں رہا ہے۔
اگر بی جے پی توقع سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہے، تو پھر آپ اور کانگریس اس کا فائدہ ای وی ایم سے منسوب کریں گے۔ اس سے دارالحکومت میں بڑے مظاہرے ہوسکتے ہیں۔ اگر بی جے پی کو صرف کچھ سیٹیں ملتی ہیں تو پھر ای وی ایم فکسنگ کے بارے میں یہ شور دور ہوجائے گا۔
یہاں ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی دہلی کو کھونے کے بعد بھی بیکار نہیں بیٹھے گی۔ یہ CAA-NRC احتجاج پر سخت ہڑتال کرے گا۔
دہلی میں مرکزی حکومت کے تحت آنے والی پولیس نے مظاہرین کو گرفتار کرنے کے لئے اسٹیڈیم استعمال کرنے کی اجازت پہلے ہی طلب کرلی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتخابات کے بعد بی جے پی کی حزب اختلاف کی جماعتوں اور سی اے اے کے مظاہرین کے ساتھ محاذ آرائی اور زیادہ ہو جائے گی۔