نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ سیاسیات اور سروجنی نائیڈو سینٹر فار وومینس اسٹڈیز (ایس این سی ڈبلیو ایس) جامعہ ملیہ اسلامیہ نے ہندی ڈے ہفتہ تقریبات کے تحت ایک مشترکہ طور پر ویبینار بعنوان ’آج کے عہد میں بیرون ممالک میں ہند حامی (بھارتیہ) کی تشکیل میں ہندی زبان کی اہمیت‘ منعقد کیا۔ اس موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر (پدم شری) پروفیسر نجمہ اختر نے پروگرام میں بطور سرپرست شرکت کی۔ ڈاکٹر شبھانکر مشرا، ڈپٹی جنرل سیکریٹری، وشوا ہندی سیکریٹریٹ ماریشس نے پروگرام میں بطور مقرر کلیدی خطبہ پیش کیا۔
یہ بھی پڑھیں:
انھوں نے کہا کہ چالیس سے زیادہ ممالک میں چھ سو سے زیادہ یونیورسٹیوں اور اسکولوں میں ہندی ترسیل، شراکت اور علوم کی زبان ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ لسانی تکثیریت کی توجہ دیسی زبانوں کی اہمیت کے اعتراف پر ہوتی ہے جس میں متنوع لسانی پس منظر، امنگیں اور زبان کی اہم استعمال ہوتے ہیں۔ یہ صرف علوم اور معلومات کی ترویج و اشاعت کے لیے اہم نہیں ہے بلکہ ایک اشتمالی اور پائے دار معاشرے کی تشکیل کے لیے بھی اہم ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ہندی زبان کے فروغ کے لیے حکومت کی سطح پروزارت داخلہ اور وزارت تعلیم کام کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر شبھانکر مشرا نے بیرون ممالک میں مقیم ہندوستانیوں میں ایک کل ہند حامی شناخت کی تشکیل میں ہندی زبان کی اہمیت پر تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ انھوں نے بشمول سرکاری زبان ہندی کے دیگر موضوعات جیسے کہ پائے دار ترقی کا تصور، لسانی تکثیریت، سرکاری سطح پر ہندی زبان کا فروغ، بیرون ہندوستان مقیم ہندوستانیوں کا تصور، بیرون ہندوستان ہندوستان کی دنیا، ہندی دنیا کی ایجاد، مقامی اور بیرونی، بیرون ممالک ہندی ادبیات اور بیرون ممالک میں ہندی کے رنگارنگ روپ وغیرہ پر تفصیل سے اپنی آرا پیش کیں۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ورلڈ ہندی سیکریٹریٹ ہندی کو ایک عالمی زبان کے طور پر مستحکم کرنے کی سمت میں کوشش کررہی ہے اور اس بات کی بھی سعی جاری ہے کہ ہندی کو اقوام متحدہ میں ایک تسلیم شدہ زبان کے طور پر شامل کیا جائے۔
بیرون ہندوستانیوں کے تناظر میں انھوں نے کہا کہ جو لوگ ہندوستان کو خیر آباد کہہ کر دنیا کے دوسرے علاقوں میں سکونت پذیر ہوچکے ہیں وہ گرچہ الگ ملکوں میں بستے ہیں اور مختلف زبانیں بولتے ہیں تاہم وہ بھارت سے جڑے ہوئے ہیں۔اقوا م متحدہ کی بین الاقوامی تنظیم برائے مائیگریشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں آباد ہندوستانیوں کی آبادی ایک اعشاریہ سات پانچ کروڑ ہے جو دنیا میں سے سب سے زیاد ہ ہے۔
ڈاکٹر انشبد نے کہا کہ ہندوستان ایک لسانی تکثیریت اور رنگا رنگ تہذیب کاملک ہے۔ دنیا میں بہت ساری زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ہندوستان ایک واحد ملک ہے جہاں سب سے بڑی تعداد میں الگ الگ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ہندی زبان کاکوئی علاقہ نہیں کیوں کہ یہ پورے ملک کی زبان ہے۔ہندی زبان کے عالمی اثرات سے بحث کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ہندی دنیا بھر میں ایک سو چالیس ملکوں میں بولی جاتی ہے۔اپنے دورہ پرتگال کی یاد تازہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ پرتگال کے سکیوریٹی آفیسر نے ان سے ہندی میں بات کی اور ان کی مدد کی۔
ڈاکٹر شہزاد احمد انصاری نے ہندی زبان کے فروغ میں سائنٹفک اینڈ ٹکنیکل ٹرمینولوجی کمیشن کے کام کاذکر کیا۔ ذخیرہ ئ الفاظ کو زرخیز بنانے کے پروسیس کی تفصیل کو واضح کیا اور بتایا کہ ذخیرہ ئ الفاظ کو متمول کرنے میں رکاوٹیں آتی ہیں لیکن ایسے الفاظ کو ہی ترجیح دی جاتی ہے جو عوام کے لیے مناسب ہوں۔اس موقع پر ڈاکٹر آمنہ مرزانے کہا کہ ایک زبان قوم کی تعمیر اور اس کے تصورات کی طرف دلالت کرتی ہے۔یونیورسٹیاں پوری دنیا کو جوڑنے کا کام کرتی ہیں۔ آج کے دورمیں جہاں وشو گروا وروشواتما کی بات ہورہی ہے یہ احساس یونیورسٹیوں سے چھن چھن کر باہر آرہا ہے۔
ویبینار کے پینل میں بطور شرکائے بحث ڈاکٹر شہزاد احمد انصاری، اسسٹنٹ ڈائریکٹر،کمشنر فار سائنٹفک اینڈ ٹکنیکل ٹرمینولوجی، وزارت تعلیم، حکومت ہند اور ڈاکٹر انوشبد، سینئر اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ ہندی، تیز پور یونیورسٹی نے حصہ لیا۔ ویبینار کی صدارت صدر شعبۂ سیاسیات اور سروجی نائیڈو سینٹر کی اعزازی ڈائریکٹر پروفیسر بلبل دھر جیمس نے کی۔ ویبینار کے کنوینر شعبۂ سیاسیات کے پروفیسر نوید جمال اور باحث سروجنی نائیڈوسینٹر کی ایسو سی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر آمنہ مرزا تھیں۔