متنازع شہریت ترمیمی قانون کے خلاف جاری مظاہروں میں دیواروں پر رنگوں کی بہار آگئی ہے، جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب جانے والی مولانا محمد علی جوہر روڈ کی دیواروں پر انقلابی پیغامات، تصاویر اور یادگار کو ثبت کیا گیا ہے۔
افراح خان کی ہتھیلیوں پر برش اور پینٹ کے داغ ہیں لیکن یہ داغ ان کے لیے خوبصورت ہیں کیوں کہ وہ رنگوں کا استعمال کر کے نئے انقلاب کے نعرے لکھ رہی ہیں، وہ دیواروں پر ان لوگوں کی تصاویر بنا رہی ہیں جو حکومت و پولیس کی زیادتی کے شکار ہوئے۔
افراح خان نے دیوار پر جے این یو کے گمشدہ طالب علم نجیب احمد اور خودکشی پر مجبور ہوئے روہت ویمولا کی تصویر بنائی ہے۔
مرانڈا ہاؤس کی طالبہ سدرہ کے لیے ان دیواروں پر بنی یہ تصویریں ایک نئی تاریخ کا حصہ ہیں، ان کا کہنا ہے کہ جب سب کچھ ختم ہوجائے گا تو یہ تصویریں آج کے انقلاب کی کہانیاں سنائیں گی۔
جامعہ فائن آرٹ کی طالبہ کلثوم نے ان دیواروں پر اپنا دل رکھ دیا ہے، انہوں نے اپنے آرٹ میں شاہین باغ کی خواتین کا عکس دکھایا ہے، جس میں ہندو اور مسلم سب شامل ہیں، تصویر کے بطن میں فیض احمد فیض کا وہ مشہور نغمہ بھی لکھا ہے جسے آج شہریت ترمیمی قانون کے ہر مظاہرہ میں گنگنایا جارہا ہے، جس کے بول ہیں 'ہم دیکھیں گے'۔
ایک دیگر طالبہ عزا نے بتایا کہ ہم اپنے آرٹ سے وہ باتیں بتانا چاہتے ہیں جو بڑے بڑے جملوں میں بیان نہیں کی جاسکتی۔