ETV Bharat / state

Professor Ahmad Mahfooz on Independence: بھارت کی آزادی میں سب سے اہم رول اردو زبان کا رہا، پروفیسر احمد محفوظ

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ بھارت کی آزادی میں سب سے اہم رول اردو زبان کا رہا ہے۔Professor Ahmad Mahfooz On Independence

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : Aug 14, 2022, 8:47 PM IST

نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی میں سب سے اہم رول اردو زبان کارہا ہے۔ یہ بات انہوں نے گزشتہ روزغالب اکیڈ می کی جانب سے آزاد ی کا امرت مہوتسو جشن ِیوم آزادی کے موقع پر مشاعرے کے انعقاد کے موقع پر کہی۔Professor Ahmad Mahfooz On Independence

انہوں نے کہاکہ بھارت میں آزادی کا امرت مہوتسو کے عنوان سے مختلف تقاریب ہو رہی ہیں۔غالب اکیڈمی مشاعرے کا انعقاد کرکے امرت مہوتسو میں اپنی نمائندگی درج کرارہی ہے

غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے اس موقع پر کہا کہ پہلی جنگ آزادی سے لے کر1947 تک اردو شاعری نے آزادی کی جدوجہد میں بڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر سید فاروق نے کنور مہندر سنگھ بیدی ادبی ٹرسٹ کی جانب سے سرفراز احمد فراز، سمیر وششٹھ،وقار مانوی صاحب کوگیارہ سو روپے کا چیک پیش کیا۔مشاعرے کی صدارت جناب وقار مانوی نے کی اور نظامت معین شاداب نے کی۔منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔

پوچھو نہ کیا گزر گئی اعصاب پر مرے

انگڑائی لینے والا تو انگڑائی لے گیا

وقار مانوی

اگر چہ بولتی ہے ساری دنیا

سخنور سب سے بہتر بولتا ہے

جی آر کنول

کل گریہئ پیہم نے مری جا بچائی

میں ضبط کی دیوار کے ملبے میں دبا تھا

احمد محفوظ

نہ جانے کیسی غلامی ہمارے خون میں ہے

خود اپنے واسطے آقاتلاش کرتے ہیں

فاروق ارگلی

ہم ترنگے کو کبھی اپنے جھکا سکتے نہیں

ہم یہ قربانی شہیدوں کی بھلا سکتے نہیں

متین امروہوی

مانا کہ اپنا راج ہے آزاد ہے وطن

افضل غریب آدمی اب بھی غلام ہے

افضل منگلوری

ہم آخر نمبر پہ ہیں فہرست میں اس کی

جب کوئی میسر نہیں ہوتا ہے تو ہم ہیں

معین شاداب

مبارک ہو سبھی اہل وطن کو جشن آزادی

وہ آزادی نہ ہو جس میں کسی کی خانہ بربادی

احمد علی برقی اعظمی

کیا کرے کوئی کسی سے پرسش احوال بھی

آج سب ہیں اپنی اپنی کربلا اوڑھے ہوئے

ظفر مراد آبادی

تمام عمر تجسس میں کاٹ دی لیکن

میں کس کو ڈھونڈ رہا ہوں مجھے نہیں معلوم

ظہیر احمد برنی

عورت بن کر جینا کوئی کھیل نہیں

سورج بن کر روز نکلنا پڑتا ہے

انا دہلوی

کیسی آزادی ہے کیسا جشن ہے

کیا حقیقت میں ہیں اب آزاد ہم

نسیم بیگم نسیم

اگر ظلمت ابھی ایوان میں ہے

طلوع صبح امکان میں ہے

سمیر دہلوی

نام زاہد ہے کام رندوں کا

کیا کہیں دیکھا ہے ہم سا مے نوش

زاہد علی خاں اثر

قتل وغارت سے تو مٹ جاتا ہے قوموں کا وجود

جذبہئ امن سے تعمیر وطن ہوتی ہے

اسرار قریشی

میرے اشعار حسینوں کی ہیں تصویر فراز

آپ کی شان میں اشعار کہوں یا نہ کہوں

سرفرازاحمد فراز

لایا تھا کیا تو کیا کھو گیا ہے تیرا

چھوڑ سودوزیاں کا جھمیلا تو چل کیوں ہے مایوس تو

آر۔سی ورما ساحل

مشاعرے میں عزیزہ مرزا، چشمہ فاروقی، کملا سنگھ زینت، اسرار رازی، سراج طالب، نورالصبح صبا، راجیو کامل، احترام صدیقی، محمد شکیل، عزم سہریاوی، طلت سروہا، ساکشات بھسین نے بھی اپنے کلام پیش کئے۔ غالب اکیڈمی کے طلبا نے قومی ترانہ اور ترانہئ ہندی پیش کیا۔ مشاعرے میں بڑی تعداد میں طلبا،اساتذہ اور مشاعرے کے شوقین موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: Interview With Professor Ahmad Mahfooz: شعبہ اردو جامعہ کے نئے صدر پروفیسر احمد محفوظ سے خاص بات چیت

یو این آئی

نئی دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اردو کے پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ ہندوستان کی آزادی میں سب سے اہم رول اردو زبان کارہا ہے۔ یہ بات انہوں نے گزشتہ روزغالب اکیڈ می کی جانب سے آزاد ی کا امرت مہوتسو جشن ِیوم آزادی کے موقع پر مشاعرے کے انعقاد کے موقع پر کہی۔Professor Ahmad Mahfooz On Independence

انہوں نے کہاکہ بھارت میں آزادی کا امرت مہوتسو کے عنوان سے مختلف تقاریب ہو رہی ہیں۔غالب اکیڈمی مشاعرے کا انعقاد کرکے امرت مہوتسو میں اپنی نمائندگی درج کرارہی ہے

غالب اکیڈمی کے سکریٹری ڈاکٹر عقیل احمد نے اس موقع پر کہا کہ پہلی جنگ آزادی سے لے کر1947 تک اردو شاعری نے آزادی کی جدوجہد میں بڑھ کر حصہ لیا ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر سید فاروق نے کنور مہندر سنگھ بیدی ادبی ٹرسٹ کی جانب سے سرفراز احمد فراز، سمیر وششٹھ،وقار مانوی صاحب کوگیارہ سو روپے کا چیک پیش کیا۔مشاعرے کی صدارت جناب وقار مانوی نے کی اور نظامت معین شاداب نے کی۔منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔

پوچھو نہ کیا گزر گئی اعصاب پر مرے

انگڑائی لینے والا تو انگڑائی لے گیا

وقار مانوی

اگر چہ بولتی ہے ساری دنیا

سخنور سب سے بہتر بولتا ہے

جی آر کنول

کل گریہئ پیہم نے مری جا بچائی

میں ضبط کی دیوار کے ملبے میں دبا تھا

احمد محفوظ

نہ جانے کیسی غلامی ہمارے خون میں ہے

خود اپنے واسطے آقاتلاش کرتے ہیں

فاروق ارگلی

ہم ترنگے کو کبھی اپنے جھکا سکتے نہیں

ہم یہ قربانی شہیدوں کی بھلا سکتے نہیں

متین امروہوی

مانا کہ اپنا راج ہے آزاد ہے وطن

افضل غریب آدمی اب بھی غلام ہے

افضل منگلوری

ہم آخر نمبر پہ ہیں فہرست میں اس کی

جب کوئی میسر نہیں ہوتا ہے تو ہم ہیں

معین شاداب

مبارک ہو سبھی اہل وطن کو جشن آزادی

وہ آزادی نہ ہو جس میں کسی کی خانہ بربادی

احمد علی برقی اعظمی

کیا کرے کوئی کسی سے پرسش احوال بھی

آج سب ہیں اپنی اپنی کربلا اوڑھے ہوئے

ظفر مراد آبادی

تمام عمر تجسس میں کاٹ دی لیکن

میں کس کو ڈھونڈ رہا ہوں مجھے نہیں معلوم

ظہیر احمد برنی

عورت بن کر جینا کوئی کھیل نہیں

سورج بن کر روز نکلنا پڑتا ہے

انا دہلوی

کیسی آزادی ہے کیسا جشن ہے

کیا حقیقت میں ہیں اب آزاد ہم

نسیم بیگم نسیم

اگر ظلمت ابھی ایوان میں ہے

طلوع صبح امکان میں ہے

سمیر دہلوی

نام زاہد ہے کام رندوں کا

کیا کہیں دیکھا ہے ہم سا مے نوش

زاہد علی خاں اثر

قتل وغارت سے تو مٹ جاتا ہے قوموں کا وجود

جذبہئ امن سے تعمیر وطن ہوتی ہے

اسرار قریشی

میرے اشعار حسینوں کی ہیں تصویر فراز

آپ کی شان میں اشعار کہوں یا نہ کہوں

سرفرازاحمد فراز

لایا تھا کیا تو کیا کھو گیا ہے تیرا

چھوڑ سودوزیاں کا جھمیلا تو چل کیوں ہے مایوس تو

آر۔سی ورما ساحل

مشاعرے میں عزیزہ مرزا، چشمہ فاروقی، کملا سنگھ زینت، اسرار رازی، سراج طالب، نورالصبح صبا، راجیو کامل، احترام صدیقی، محمد شکیل، عزم سہریاوی، طلت سروہا، ساکشات بھسین نے بھی اپنے کلام پیش کئے۔ غالب اکیڈمی کے طلبا نے قومی ترانہ اور ترانہئ ہندی پیش کیا۔ مشاعرے میں بڑی تعداد میں طلبا،اساتذہ اور مشاعرے کے شوقین موجود تھے۔

یہ بھی پڑھیں: Interview With Professor Ahmad Mahfooz: شعبہ اردو جامعہ کے نئے صدر پروفیسر احمد محفوظ سے خاص بات چیت

یو این آئی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.