جے این یو کے سابق طالب علم عمر خالد شمال مشرقی دہلی فسادات سازش کے کیس میں یو اے پی اے ایکٹ کے تحت گرفتار ہیں، دارالحکومت دہلی کے کرکرڈوما کورٹ میں سماعت ہوئی اس دوران عمر خالد کے وکیل تریدیپ پیس نے عدالت کو بتایا کہ 'پولیس کے دعوؤں میں تضاد ہے اور اس کیس کو تیار کیا گیا ہے'۔
خالد سمیت کئی دیگر افراد کے خلاف سخت یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ ان پر فروری 2020 کے تشدد کے 'ماسٹر مائنڈ'ہونے کا الزام ہے، جس میں 53 افراد ہلاک اور 700 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔ عمر خالد نے اس کیس میں ضمانت کی درخواست داخل کی تھی جس پر آج سماعت ہوئی۔ خالد کے وکیل تریدیپ پیس نے ایڈیشنل سیشن جج امیتابھ راوت کو بتایا کہ 'ایف آئی آر کو غیر ضروری طور پر تیار کیا گیا ہے، اور ان کو نشانہ بنانے اور فریم کرنے کے لیے استعمال کیا گیا'۔
وکیل نے دہلی پولیس کے دعوؤں میں دو تضاد کی طرف اشارہ کیا۔ سب سے پہلے، اس نے عدالت کو مہاراشٹر میں خالد کی تقریر کا 21 منٹ کا ویڈیو کلپ دکھایا، جس پر پروسیکیوشن نے مبینہ طور پر اشتعال انگیز لیبل لگایا تھا۔ وکیل نے ویڈیو دکھاتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ 'ان کے مؤکل نے تقریر کے ذریعے تشدد کی کوئی بات نہیں کی بلکہ درحقیقت لوگوں کو اتحاد کا پیغام دیا'۔
بابائے قوم مہاتما گاندھی پر مبنی اتحاد کے پیغام کو اس دن عمر خالد نے اپنے خطاب کا موضوع بنایا تھا یہ مواد فتنہ انگیز نہیں ہے۔ بلکہ یہ تو جمہوری طاقت کی بات کررہے ہیں انہوں نے اپنے خطاب میں گاندھی جی کا بھی حوالہ دیا ہے'۔
دوم، اس نے دلیل دی کہ پولیس کیس کے مطابق خالد نے 8 جنوری کو دوسرے ملزمان کے ساتھ مل کر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورے کے دوران ہنگامہ آرائی کی سازش کی تھی، تاہم، ان کے دورے سے متعلق خبروں کا اعلان صرف فروری میں کیا گیا تھا'۔ وکیل نے کہا کہ 'یہ ایک قسم کا جھوٹ ہے جو پھیلایا جارہا ہے۔ یہ ایف آئی آر ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ کیا لوگوں پر مقدمہ چلانا اتنا آسان ہے؟
مزید پڑھیں:"یو اے پی اے" قانون کیا ہے؟
دہلی پولیس نے حال ہی میں کہا تھا کہ 'ضمانت کی درخواست میں کوئی میرٹ نہیں ہے اور وہ اس کیس میں دائر چارج شیٹ کا حوالہ دے کر عدالت کے سامنے پیش کریں گے۔ اپریل میں جے این یو کے سابق طالب علم کو فسادات کے ایک معاملے میں ضمانت ملی تھی۔ عدالت نے اسے ضمانت دیتے ہوئے نوٹ کیا کہ وہ واقعی جرم کے مقام پر جسمانی طور پر موجود نہیں تھے'۔ ان کے علاوہ جے این یو کی طالبات نتاشا ناروال اور دیوانگنا کلیتا، جامعہ رابطہ کمیٹی کے ارکان صفورہ زرگر، سابق عام آدمی پارٹی کونسلر طاہر حسین اور کئی دیگر کے خلاف بھی اس کیس میں ان پر یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس معاملے میں آئندہ سماعت ستمبر کے پہلے ہفتے میں کی جائے گی جس میں پروسیکیوشن اپنی دلائل پیش کریں گے۔