ETV Bharat / state

Ghalib Institute غالب انسٹی ٹیوٹ میں دو روزہ قومی سمینار اختتام پذیر - دہلی خبر

الطاف انجم نے کہا کہ غالب کو مختلف نظریات اور فکری تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آج کا سمینار بھی اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ لیکن قابل غور یہ ہے کہ کلام غالب کو جس زاویے سے بھی دیکھیں اس کی معنویت برقرار رہتی ہے۔

غالب انسٹی ٹیوٹ
غالب انسٹی ٹیوٹ
author img

By

Published : Mar 21, 2023, 9:14 PM IST

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام فاصلاتی نظام تعلیم کشمیر یونیورسٹی سری نگر کے اشتراک سے دو روزہ قومی سمینار بعنوان 'غالب اور جشن زندگی' اختتام پذیر ہوا۔ سمینار کے دوسرے روز صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک چار اجلاس ہوئے جس میں مدعو مقالہ نگاروں نے مقالات پیش کیے۔ پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر الطاف انجم نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ غالب کو مختلف نظریات اور فکری تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آج کا سمینار بھی اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ لیکن قابل غور یہ ہے کہ کلام غالب کو جس زاویے سے بھی دیکھیں اس کی معنویت برقرار رہتی ہے، بلکہ یہ ہماری سخن فہمی کا امتحان لیتی ہے۔

اس اجلاس میں ڈاکٹر محمد یونس ٹھوکر نے غالب اور اقبال کا شعور حیات،ڈاکٹر اقبال افروز نے غالب اور میر کا تصور غم، ڈاکٹر نصرت جبیں نے غالب کامعشوق انفرادیت و افتراق، ڈاکٹر محضر رضا نے غالب کا تصورِ حیات،ڈاکٹر کوثر رسول نے غالب کا تصور کائنات، خدا کائنات اور ڈاکٹر محی الدین زور نے غالب کا وطیرہَ زندگی کے موضوعات پر مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت جاوید احمد نجار نے کی۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر نظیر احمد ملک اور شفیع سنبلی نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر ملک نے کہا کہ مجھے سمینار کاموضوع بہت پسند آیا اس موضوع کے سہارے ہم زندگی کے بہت سے گوشوں پر غور کر سکتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں کہ غالب نے زندگی کے کون کون سے مواقع کا جشن منایا، شفیع سنبلی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ کشمیر میں جو بھی سمینار ہوتے تھے ان پر اقبالیات کا غلبہ رہتا تھا لیکن یہ ایک اچھا موقع ہے کہ ہم غالبیات کو موضوع بنا رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس سے غالبیات کی روایت مزید مستحکم ہوگی۔

اس اجلاس میں ڈاکٹر توصیف احمد نے مرزا اسد اللہ خاں غالب اور غم زندگی، ڈاکٹر مسرت گیلانی نے مرزا اسد اللہ خاں غالب اور غم روزگار، داکٹر امتیاز احمد نے غالب اظہار درد میں تجرید کی تجسیم اور ڈاکٹر محمد یوسف وانی نے غالب کی شاعری میں رقیب کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت صوبیہ رفیق نے کی۔ تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شفیقہ پروین نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارت خطاب میں کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ غالبیات کے تعلق سے سب سے زیادہ فعال ادارہ ہے لیکن کشمیر میں اس سمینار کا انعقاد اس ادارے کی تاریخ میں خوبصورت اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور نظامت فاصلاتی تعلیم کے ذمہ داروں کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ غالب نے اپنی شاعری میں ایسے پہلو پیدا کیے جن سے اردو شاعری کی رویت میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوئی۔

اس اجلاس میں ڈاکٹر سہیل سالم نے غالب کی شاعری میں زندگی کا تصور، داکٹر مصروفہ قادر نے غالب زندگی کے رمز شناس اور ڈاکٹر ریاض احمد نے ہم نے غالب سے کیا سیکھا کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ چوتھے اجلاس کی صدارت پروفیسر جوہر قدوسی نے کی۔ انھوں نے اپنی صدارتی تقریر میں انسانی عظمت کے عناصر کو پیش کیا ہے۔ غالب نے قنوطیت میں رجائیت کے چراغ روشن کیے ہیں۔ وہ وبائے عام میں بھی مرنا نہیں چاہتے۔ ان کے نظریہَ زندگی کالب لباب رجائیت ہے۔ اس اجلاس میں محترمہ اسما بدر نے غالب کی آشفتہ نوائی، ڈاکٹر الطاف انجم نے ہوا ہے شہ کا مصاحب کلام غالب کا نو تاریخی جائزہ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔

غالب انسٹی ٹیوٹ کے زیراہتمام فاصلاتی نظام تعلیم کشمیر یونیورسٹی سری نگر کے اشتراک سے دو روزہ قومی سمینار بعنوان 'غالب اور جشن زندگی' اختتام پذیر ہوا۔ سمینار کے دوسرے روز صبح 10 بجے سے شام 5 بجے تک چار اجلاس ہوئے جس میں مدعو مقالہ نگاروں نے مقالات پیش کیے۔ پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر الطاف انجم نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں انھوں نے کہا کہ غالب کو مختلف نظریات اور فکری تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ آج کا سمینار بھی اسی سمت میں ایک قدم ہے۔ لیکن قابل غور یہ ہے کہ کلام غالب کو جس زاویے سے بھی دیکھیں اس کی معنویت برقرار رہتی ہے، بلکہ یہ ہماری سخن فہمی کا امتحان لیتی ہے۔

اس اجلاس میں ڈاکٹر محمد یونس ٹھوکر نے غالب اور اقبال کا شعور حیات،ڈاکٹر اقبال افروز نے غالب اور میر کا تصور غم، ڈاکٹر نصرت جبیں نے غالب کامعشوق انفرادیت و افتراق، ڈاکٹر محضر رضا نے غالب کا تصورِ حیات،ڈاکٹر کوثر رسول نے غالب کا تصور کائنات، خدا کائنات اور ڈاکٹر محی الدین زور نے غالب کا وطیرہَ زندگی کے موضوعات پر مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت جاوید احمد نجار نے کی۔ دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر نظیر احمد ملک اور شفیع سنبلی نے کی۔ اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر ملک نے کہا کہ مجھے سمینار کاموضوع بہت پسند آیا اس موضوع کے سہارے ہم زندگی کے بہت سے گوشوں پر غور کر سکتے ہیں اور یہ جان سکتے ہیں کہ غالب نے زندگی کے کون کون سے مواقع کا جشن منایا، شفیع سنبلی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ کشمیر میں جو بھی سمینار ہوتے تھے ان پر اقبالیات کا غلبہ رہتا تھا لیکن یہ ایک اچھا موقع ہے کہ ہم غالبیات کو موضوع بنا رہے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ اس سے غالبیات کی روایت مزید مستحکم ہوگی۔

اس اجلاس میں ڈاکٹر توصیف احمد نے مرزا اسد اللہ خاں غالب اور غم زندگی، ڈاکٹر مسرت گیلانی نے مرزا اسد اللہ خاں غالب اور غم روزگار، داکٹر امتیاز احمد نے غالب اظہار درد میں تجرید کی تجسیم اور ڈاکٹر محمد یوسف وانی نے غالب کی شاعری میں رقیب کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ اس اجلاس کی نظامت صوبیہ رفیق نے کی۔ تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شفیقہ پروین نے کی۔ انھوں نے اپنے صدارت خطاب میں کہا کہ غالب انسٹی ٹیوٹ غالبیات کے تعلق سے سب سے زیادہ فعال ادارہ ہے لیکن کشمیر میں اس سمینار کا انعقاد اس ادارے کی تاریخ میں خوبصورت اضافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں غالب انسٹی ٹیوٹ اور نظامت فاصلاتی تعلیم کے ذمہ داروں کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ غالب نے اپنی شاعری میں ایسے پہلو پیدا کیے جن سے اردو شاعری کی رویت میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوئی۔

اس اجلاس میں ڈاکٹر سہیل سالم نے غالب کی شاعری میں زندگی کا تصور، داکٹر مصروفہ قادر نے غالب زندگی کے رمز شناس اور ڈاکٹر ریاض احمد نے ہم نے غالب سے کیا سیکھا کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔ چوتھے اجلاس کی صدارت پروفیسر جوہر قدوسی نے کی۔ انھوں نے اپنی صدارتی تقریر میں انسانی عظمت کے عناصر کو پیش کیا ہے۔ غالب نے قنوطیت میں رجائیت کے چراغ روشن کیے ہیں۔ وہ وبائے عام میں بھی مرنا نہیں چاہتے۔ ان کے نظریہَ زندگی کالب لباب رجائیت ہے۔ اس اجلاس میں محترمہ اسما بدر نے غالب کی آشفتہ نوائی، ڈاکٹر الطاف انجم نے ہوا ہے شہ کا مصاحب کلام غالب کا نو تاریخی جائزہ کے موضوع پر مقالات پیش کیے۔

مزید پڑھیں:International Ghalib Seminar غالب انسٹی ٹیوٹ میں تین روزہ بین الاقوامی سیمینار کا انعقاد

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.