مرکزی حکومت کے زرعی قوانین کے خلاف چل رہے احتجاجی مظاہروں کے دوران دہلی کا ٹیکری بارڈر کسی گاؤں کی طرح نظر آرہا ہے۔ یہاں کے بیشتر کسان پڑوسی صوبے پنجاب سے آئے ہیں، جو مرکزی حکومت سے تین زرعی قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
پنجاب کے منسا ضلع سے آئے 50 سالہ گرنام سنگھ کہتے ہیں کہ مستقبل میں یہی ہمارا گھر بننے والا ہے، کیونکہ یہ لڑائی لمبی چلنے والی ہے۔ ہم یہی رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ہر چیز کافی مقدار میں ہے۔ کم از کم چھ ماہ کا راشن ہے۔
نو دن قبل دہلی کے سرحد پر پہنچے کسان تب سے ہر دن لنگر لگا کر تقریباً 5000 لوگوں کو کھانا کھلا رہے ہیں۔ سخت سردی میں کسانوں کے علاج کے لیے میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں۔
26 نومبر کو اپنے گھر سے نکلے گرنام نے کہا کہ انہیں ٹیکری بارڈر پر پہنچتے ہی سینے میں درد ہوا۔ اس کے بعد انہیں رام منوہر لوہیا اسپتال لے جایا گیا۔ اسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد وہ مظاہرین کے درمیان دوبارہ لوٹ آئے۔
سڑک پر ایک کے پیچھے ایک 500 سے زائد ٹریکٹر کھڑے ہیں۔ زیادہ تر پر پوسٹر لگے ہین۔ جن پر 'کسان نہیں تو کھانا نہیں، جی ڈی پی نہیں تو کوئی مستقبل نہیں' جیسے نعرے لکھے ہوئے ہیں۔
یہ پوسٹر کسانوں کے ایک گورپ نے لگائے ہیں، جن میں بیشتر نوجوان شامل ہیں۔
کچھ سماجی تنظیموں نے شمسی توانائی لگا رکھے ہیں، تاکہ کسان اپنے موبائیل فون چارج کر سکیں۔ اس کے علاوہ کئی مقامی لوگوں نے پانی، صابن، سوکھے میوے اور مچھر مارنے کے سامان فراہم کر رہے ہیں۔ ٹیکری بارڈر پر عارضی بیت الخلا بھی بنائے گئے ہیں۔
دراصل، مرکزی حکومت نے ستمبر میں تین زرعی قوانین کو منظوری دی تھی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان قوانین کا مقصد بچولیوں کو ختم کرکے کسانوں کو ملک میں کہیں بھی اپنی فصل بیچنے کی اجازت دے کر کاشتکاری میں سدھار لانا ہے۔
کسانوں کی فکر ہے کہ اس قانون سے ایم ایس پی سسٹم اور منڈیا ختم ہو جائیں گی۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ایم ایس پی جاری رہے گی اور نئے قوانین سے کسانوں کو اپنی فصل بیچنے کے لے اور اور بھی مواقع دستیاب ہوں گے۔
مزید پڑھیں:
بھارت بند پر کسان بضد، 9 دسمبر کو ہوگی چھٹویں دور کی بات چیت
اس بیچ کسانوں نے آٹھ دسمبر کو بھارت بند کا بھی اعلان کیا ہے۔