ETV Bharat / state

بھارت میں تحفظِ صحتِ عامہ اچھا، مگر طویل اور کٹھن راستہ - صحت شعبہ میں حکومت کے پروجیکٹ

جہاں ہمارا ملک تعلیم یافتہ طبی ماہرین کی قلت کا سامنا کررہا ہے وہیں ایمس کے تربیت یافتہ 49فیصد ڈاکٹر بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ممالک ہجرت کرکے چلے گئے ہیں اور ملک میں صورتحال یہ ہے کہ پیشہ وروں کی کمی کی وجہ سے کئی مریضوں کو خصوصی جراحی کیلئے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

بھارت میں تحفظِ صحتِ عامہ اچھا، مگر طویل اور کٹھن راستہ
بھارت میں تحفظِ صحتِ عامہ اچھا، مگر طویل اور کٹھن راستہ
author img

By

Published : Feb 13, 2020, 9:10 AM IST

Updated : Mar 1, 2020, 4:26 AM IST

بھارتی حکومت روز بروز بڑھتے ہوئے عوامی مطالبات اور جدید طب میں بدل رہے رحجانات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خود مختاری طبی اداروں کے قیام کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔

اس سمت میں حکومت نے صحت کے شعبے میں انسانی وسائل کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کی غرض سے 'پردھان منتری سوستھا سرکھشا یوجنا 'کے تحت آل انڈیا انسٹیچیوٹ آف میڈیکل سائنسز (اے آئی آئی ایم ایس)قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

قومی ترقیاتی محاذ (یو پی اے)کی حکومت نے سنہ 2012میں مدھیہ پردیش کے بھوپال، اڑیسہ کے بھبنیشور، راجستھان کے جودھپور، بہار کے پٹنہ اور چھتیس گڑھ کے رائے پور میں ایمس کا قیام کیا تھا۔

اسکے بعد سنہ 2018میں حکومت نے آںدھراپردیش کے منگلاگیری، مہاراشٹر کے ناگپور،اترپردیش کے گورکھپور، پنجاب کے بٹھنڈا،مغربی بنگال کے کلیانی اور جھارکھنڈ کے دیوگھر میں نئے ایمس کا قیام کرنے کی تجویز کی گئی اور ساتھ ہی ان اداروں میں طبی طلباءکے نئے داخلوں کو بھی منظوری دی گئی۔

مرکزی حکومت مختلف مراحل اورمختلف علاقوں جیسے آسام کے گواہاٹی، جموں و کشمیر کے اونتی پورہ، ہماچل پردیش کے بلاسپور، تامل ناڈو کے مدورائے، بہار کے دربھنگہ، گجرات کے راجکوٹ اور ہریانہ کے ریواری میں ایمس قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

صحتِ عامہ پر بڑی توجہ رکھتے ہوئے سرکار ان منصوبوں پر فوری عمل آوری چاہتی ہے تاکہ سہولیات کے حوالے سے علاقائی عدم مساوات کو ختم کیا جاسکے۔

مزید برآں مرکزی حکومت نے ملک میں طبی تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں جن میں ڈاکٹروں کی (ملازمت سے)سبکدوشی کی عمر کو بڑھا کر 65سال کردینا، ماہرین کی قلت سے نمٹنے کیلئے مزید طبی و نیم طبی اسکولوں کا قیام، معالجین کے ہنر کی ترقی کیلئے حکمتِ عملی، طبی تعلیم کے نصاب میں لازمی تبدیلی کرنا، 70میڈیکل کالجوں کا درجہ بڑھانا اور سُپر سُپیشلٹی بلاکوں کا قیام وغیرہ شامل ہے۔

کئی علاقائی مسائل کی وجہ سے مجوزہ ایمس کی عمارتوں کا تعمیری کام سُست روی کا شکار ہوگیا ہے۔سال 2019-20 میں 5 ہزار کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی وزارتِ صحت نے نو منظور شدہ ایمس کے حوالے سے کوئی خاص پیشرفت نہیں کی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ مزید تعمیراتی کام زمین، پانی اور بجلی سے متعلق تنازعات کی وجہ سے سُست روی کا شکار ہوگیا ہے۔رائے بریلی میں ایمس کی تعمیر ایک پچاس ایکڑ رقبہ زمین کے تنازعہ کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔یہاں پُرانی عمارتیں ابھی نہیں گرائی جاسکی ہیں جبکہ پانی کی فراہمی کو بھی باضابطہ نہیں بنایا جاسکا ہے۔

حالانکہ گورکھپور میں ایم بی بی ایس کی کلاسز شروع تو ہوچکی ہیں لیکن ابھی اسپتال کی تعمیر کا نصف کام ہی ہوسکا ہے۔منگلگیری کے ایمس میں سڑکوں کی تعمیر، بجلی گھر کے قیام، پُرانی عمارتوں کے انہدام اور گند نکاسی کے نظام کی تعمیر کا کام زیرِ التوا ہے۔

کشمیر میں ایمس کی تعمیر کیلئے دیے گئے 15ایکڑ رقبہ زمین پر بھی قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے کام شروع نہیں ہوسکا ہے جبکہ بہار میں ابھی تک انسٹیچیوٹ کی تعمیر کیلئے جگہ کا تعین ہونا بھی باقی ہے۔

راجکوٹ، دیوگھر اور بی بی نگر میں بھی کئی مقامی معاملات ان اسپتالوں کی تعمیر کی راہ کے روڑے بنے ہوئے ہیں جبکہ ہریانہ میں جنگلات کی زمین پر ایمس کی تعمیر کے سرکاری منصوبے کیلئے مرکزی وزارتِ ماحولیات نے اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔

تاہم کلیانی، رائے بریلی، بٹھنڈا، دیوگھر، بی بی نگر اور گورکھپور کے ایمس کیلئے ایم بی بی ایس کا پہلا بیچ 50طلباءفی ادارہ کے حساب سے سال 2019-20میں داخل ہونے جارہا ہے ۔جبکہ ناگپور اور بٹھنڈا کے ایمس میں مریضوں کے علاج و معالجہ کی خدمات پہلے ہی شروع ہوچکی ہیں۔

سال 2019-20کے دوران مرکزی حکومت نے 21 ایمس اور 75میڈیکل کالجوں سمیت سُپر سُپیشلٹی اسپتالوں کو ترقی دینے اور مظبوط بنانے پر زائد از 4 ہزار کروڑ روپے کی رقم صرف کی۔اسکے علاوہ حکومت نے آئندہ دس سال کیلئے 35 سو کروڑ روپے کی رقم منظور کی ہے جن میں سے ابھی تک 11 سو روپے کی رقم خرچ کی جا چکی ہے۔

سال 2009سے سال 2019 تک 15 نئے ایمس کے لیے 20ہزار 756 کروڑ روپے کی رقم منظور کی گئی ہے۔حکومت نے اس سلسلے میں تعمیراتی کام کی تکمیل کیلئے سال 2020-23 کا ہدف مقرر کیا ہے۔

تاہم نو تعمیر شدہ ایمس کے راستے میں پیدا ہوئی حائل روکاٹوں کو پار کرنے اور انہیں مقبول ترین بنانے کے نہایت کم امکانات نظر آرہے ہیں۔تعمیر کے ابتدائی مراحل میں ان اداروں کو کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ ادارے توقعات پر کھرا اُتر سکیں گے یا نہیں۔

ان میڈیکل اداروں کی تعداد جو بھی ہو، انکا بنیادی مقصد بھارت میں صحتِ عامہ کے محفوظ مستقبل کو یقینی بنانا ہے اور عوام کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے ان میڈیکل کالجوں اور اسپتالوں کا آپس میں جڑا ہونا انتہائی ضروری ہے۔یہ سب منصوبے فقط مرکزی اور ریاستی حکومت کے مربوط تعاون اور کوششوں سے ہی عمل آسکتے ہیں۔

چونکہ نو قائم شدہ ایمس ابتدائی ہچکولوں سے جھوج رہے ہیں، نئی دہلی کے ایمس میں موجود خامیوں کا گہرا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔حالانکہ یہ اہم انسٹیچیوٹ طبی تعلیم اور تحقیق میں مہارت رکھنے والا خصوصی تدریسی اسپتال بننے کا ہدف بنائے ہوئے ہے،کمپوٹرولر آڈیٹر جنرل(سی اے جی)کی سنہ 2018کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ ادارہ محض ایک سُپر اسپیشلٹی اسپتال ہی رہا ہے۔

جہاں ہمارا ملک تعلیم یافتہ طبی ماہرین کی قلت کا سامنا کررہا ہے وہیں ایمس کے تربیت یافتہ 49فیصد ڈاکٹر بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ممالک ہجرت کرکے چلے گئے ہیں اور ملک میں صورتحال یہ ہے کہ پیشہ وروں کی کمی کی وجہ سے کئی مریضوں کو خصوصی جراحی کیلئے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

ایک تازہ تحقیق کے مطابق ایک ڈاکٹر فی مریض 4سے9 منٹ کا وقت دیتا ہے ۔اسی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ انسٹیچیوٹ کیلئے منظور کی جاتی رہی رقومات کا محض 2فیصد ہی تحقیقی کام پر خرچ کیا گیا ہے جبکہ بیشتر تحقیقی منصوبے کثیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ، غیر اصل تحقیق کاروں، دستخط شدہ معاہدوں کا حصہ ہیں۔

حالانکہ ایمس نے اس رپورٹ میں کئی نتائج پر اعتراض کیا ہے تاہم سی اے جی کی اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمس دہلی، بھارت میں صحتِ عامہ کے ڈھانچہ کی جِدکاری کی قیادت کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔یہاں تک کہ اس رپورٹ میں طبی مراکز کے قیام اور اہم طبی سامان کی خریداری میں تاخیر ہونے تک کی نشاندہی کی گئی ہے۔

رشوت ستانی اور مالی بے ضابطگیوں کے کئی معاملات زیرِ تحقیقات ہیں لیکن یہ بات باالکل سچ ہے کہ ایمس دہلی کئی مسائل سے دوچار ہے۔سال 2012-13کے دوران اس اہم انسٹیچیوٹ نے تحقیقی کام کیلئے صرف 1.31 کروڑ روپے حاصل کیے۔یہاں کے کئی اسکالر بیرون ملک چلے گئے ہیں جبکہ سینئر ڈاکٹروں اور ماہرین کو یقین ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایمس دہلی کا وقار ماند پڑ چکا ہے۔

حالانکہ یہ انسٹیچیوٹ بیماریوں کی تشخیص کے حوالے سے شاندار کارکردگی دکھارہا ہے لیکن بیماروں کی دیکھ بھال کے تئیں سطحی رویہ روا ہے یہاں تک کہ اس ادارے میں اپنا علاج کرانے کیلئے آنے والے ہزاروں بیماروں کو رہائش فراہم کرنے میں حکام ناکام ہورہے ۔

انسٹیچیوٹ کے آوٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ (او پی ڈی)کے کام کاج کے طریقے کی شدید تنقید ہورہی ہے جبکہ ایسا کوئی باضابطہ نظام بھی نہیں بنایا جاسکا ہے کہ جسکے تحت مختلف ریاستوں کے اسپتال پیچیدہ مریضوں کو اس انسٹیچیوٹ میں منتقل کردیتےہیں۔

دوسری جانب ایمس کم شدت کی تکلیف والے مریضوں کو داخل کرنے والا محض ایک عام اسپتال بن کے رہ گیا ہے۔اسکے علاوہ روز افزوں انسٹیچیوٹ کے حوالے سے نت نئے گھوٹالے سامنے آتے ہیں۔ایمس دہلی جیسے مزید اداروں کی یقیناَ ضرورت ہے لیکن بہترین ادارے صرف تب ہی ممکن ہیں، جب ممکنہ حد تک بہترین لوگ انکے ساتھ ہم آہنگ ہوں اور پھر ان اداروں کو مطلوبہ خطوط پر چلایا جائے۔

اگرچہ ملک کے مختلف حصوں میں میڈیکل اداروں کے قیام کا فیصلہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن انکے معیار اور کام کاج کے حوالے سے فخر کرنے کے لائق کچھ بھی نہیں ہے۔

نو قائم شدہ 6انسٹیچیوٹس میں بنیادی ڈھانچے کی شدید کمی ہے۔ایک پارلیمانی کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگر تجربہ کار پیشہ وروں کی قلت ہوتو بنیادی ڈھانچہ ضائع ہوگا ۔پارلیمانی کمیٹی کی اگست2018کی اس رپورٹ میں پایا گیا ہے کہ 6 ایمس کیلئے منظور شدہ 1 ہزار 830 تدریسی اسامیوں میں سے884(44فیصد)خالی تھیں جبکہ سُپر اسپیشلٹی ڈیپارٹمنٹوں میں تدریسی پیشہ وروں کی شدید قلت تھی۔

ان اداروں کیلئے منظورشدہ 22 ہزار 656غیر تدریسی اسامیوں میں سے 13 ہزار 788 (60فیصد)خالی تھی ںاورعملے کی قلت کی وجہ سے ان اداروں میں تعینات ڈاکٹروں پر اضافی بوجھ ہے۔

کمیٹی نے یہاں تک پایا کہ ایمس ریشی کیش میں گیس پائپ لائینوںاور گند نکاس کی سہولیات نہیں ہیں جبکہ ایمس جودھپور میں ایک بھی ماڈیولر آپریشن تھیٹر کام کی حالت میں نہیں ہے۔صحتِ عامہ کے ماہرین کہتے ہیں کہ ان چلینجز سے کئی اسباق سیکھے جاسکتے ہیں۔حکومت ان نو قائم شدہ انسٹیچیوٹوں کو طبی تعلیم کے بہترین مراکز بنانا چاہتی ہے لیکن فیکلٹی کی قلت، غیر معیاری بنیادی ڈھانچہ اور ناکافی سہولیات پریشانی اور خدشات کی وجہ بنی ہوئی ہیں۔

بھارتی حکومت روز بروز بڑھتے ہوئے عوامی مطالبات اور جدید طب میں بدل رہے رحجانات کو مدنظر رکھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ خود مختاری طبی اداروں کے قیام کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے۔

اس سمت میں حکومت نے صحت کے شعبے میں انسانی وسائل کی کمی کے مسئلے سے نمٹنے کی غرض سے 'پردھان منتری سوستھا سرکھشا یوجنا 'کے تحت آل انڈیا انسٹیچیوٹ آف میڈیکل سائنسز (اے آئی آئی ایم ایس)قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔

قومی ترقیاتی محاذ (یو پی اے)کی حکومت نے سنہ 2012میں مدھیہ پردیش کے بھوپال، اڑیسہ کے بھبنیشور، راجستھان کے جودھپور، بہار کے پٹنہ اور چھتیس گڑھ کے رائے پور میں ایمس کا قیام کیا تھا۔

اسکے بعد سنہ 2018میں حکومت نے آںدھراپردیش کے منگلاگیری، مہاراشٹر کے ناگپور،اترپردیش کے گورکھپور، پنجاب کے بٹھنڈا،مغربی بنگال کے کلیانی اور جھارکھنڈ کے دیوگھر میں نئے ایمس کا قیام کرنے کی تجویز کی گئی اور ساتھ ہی ان اداروں میں طبی طلباءکے نئے داخلوں کو بھی منظوری دی گئی۔

مرکزی حکومت مختلف مراحل اورمختلف علاقوں جیسے آسام کے گواہاٹی، جموں و کشمیر کے اونتی پورہ، ہماچل پردیش کے بلاسپور، تامل ناڈو کے مدورائے، بہار کے دربھنگہ، گجرات کے راجکوٹ اور ہریانہ کے ریواری میں ایمس قائم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

صحتِ عامہ پر بڑی توجہ رکھتے ہوئے سرکار ان منصوبوں پر فوری عمل آوری چاہتی ہے تاکہ سہولیات کے حوالے سے علاقائی عدم مساوات کو ختم کیا جاسکے۔

مزید برآں مرکزی حکومت نے ملک میں طبی تعلیم کو بہتر بنانے کیلئے کئی اقدامات کئے ہیں جن میں ڈاکٹروں کی (ملازمت سے)سبکدوشی کی عمر کو بڑھا کر 65سال کردینا، ماہرین کی قلت سے نمٹنے کیلئے مزید طبی و نیم طبی اسکولوں کا قیام، معالجین کے ہنر کی ترقی کیلئے حکمتِ عملی، طبی تعلیم کے نصاب میں لازمی تبدیلی کرنا، 70میڈیکل کالجوں کا درجہ بڑھانا اور سُپر سُپیشلٹی بلاکوں کا قیام وغیرہ شامل ہے۔

کئی علاقائی مسائل کی وجہ سے مجوزہ ایمس کی عمارتوں کا تعمیری کام سُست روی کا شکار ہوگیا ہے۔سال 2019-20 میں 5 ہزار کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود بھی وزارتِ صحت نے نو منظور شدہ ایمس کے حوالے سے کوئی خاص پیشرفت نہیں کی ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ مزید تعمیراتی کام زمین، پانی اور بجلی سے متعلق تنازعات کی وجہ سے سُست روی کا شکار ہوگیا ہے۔رائے بریلی میں ایمس کی تعمیر ایک پچاس ایکڑ رقبہ زمین کے تنازعہ کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔یہاں پُرانی عمارتیں ابھی نہیں گرائی جاسکی ہیں جبکہ پانی کی فراہمی کو بھی باضابطہ نہیں بنایا جاسکا ہے۔

حالانکہ گورکھپور میں ایم بی بی ایس کی کلاسز شروع تو ہوچکی ہیں لیکن ابھی اسپتال کی تعمیر کا نصف کام ہی ہوسکا ہے۔منگلگیری کے ایمس میں سڑکوں کی تعمیر، بجلی گھر کے قیام، پُرانی عمارتوں کے انہدام اور گند نکاسی کے نظام کی تعمیر کا کام زیرِ التوا ہے۔

کشمیر میں ایمس کی تعمیر کیلئے دیے گئے 15ایکڑ رقبہ زمین پر بھی قانونی چارہ جوئی کی وجہ سے کام شروع نہیں ہوسکا ہے جبکہ بہار میں ابھی تک انسٹیچیوٹ کی تعمیر کیلئے جگہ کا تعین ہونا بھی باقی ہے۔

راجکوٹ، دیوگھر اور بی بی نگر میں بھی کئی مقامی معاملات ان اسپتالوں کی تعمیر کی راہ کے روڑے بنے ہوئے ہیں جبکہ ہریانہ میں جنگلات کی زمین پر ایمس کی تعمیر کے سرکاری منصوبے کیلئے مرکزی وزارتِ ماحولیات نے اجازت دینے سے انکار کیا ہے۔

تاہم کلیانی، رائے بریلی، بٹھنڈا، دیوگھر، بی بی نگر اور گورکھپور کے ایمس کیلئے ایم بی بی ایس کا پہلا بیچ 50طلباءفی ادارہ کے حساب سے سال 2019-20میں داخل ہونے جارہا ہے ۔جبکہ ناگپور اور بٹھنڈا کے ایمس میں مریضوں کے علاج و معالجہ کی خدمات پہلے ہی شروع ہوچکی ہیں۔

سال 2019-20کے دوران مرکزی حکومت نے 21 ایمس اور 75میڈیکل کالجوں سمیت سُپر سُپیشلٹی اسپتالوں کو ترقی دینے اور مظبوط بنانے پر زائد از 4 ہزار کروڑ روپے کی رقم صرف کی۔اسکے علاوہ حکومت نے آئندہ دس سال کیلئے 35 سو کروڑ روپے کی رقم منظور کی ہے جن میں سے ابھی تک 11 سو روپے کی رقم خرچ کی جا چکی ہے۔

سال 2009سے سال 2019 تک 15 نئے ایمس کے لیے 20ہزار 756 کروڑ روپے کی رقم منظور کی گئی ہے۔حکومت نے اس سلسلے میں تعمیراتی کام کی تکمیل کیلئے سال 2020-23 کا ہدف مقرر کیا ہے۔

تاہم نو تعمیر شدہ ایمس کے راستے میں پیدا ہوئی حائل روکاٹوں کو پار کرنے اور انہیں مقبول ترین بنانے کے نہایت کم امکانات نظر آرہے ہیں۔تعمیر کے ابتدائی مراحل میں ان اداروں کو کئی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ یہ ادارے توقعات پر کھرا اُتر سکیں گے یا نہیں۔

ان میڈیکل اداروں کی تعداد جو بھی ہو، انکا بنیادی مقصد بھارت میں صحتِ عامہ کے محفوظ مستقبل کو یقینی بنانا ہے اور عوام کو صحت کی مفت سہولیات فراہم کرنے کے حوالے سے ان میڈیکل کالجوں اور اسپتالوں کا آپس میں جڑا ہونا انتہائی ضروری ہے۔یہ سب منصوبے فقط مرکزی اور ریاستی حکومت کے مربوط تعاون اور کوششوں سے ہی عمل آسکتے ہیں۔

چونکہ نو قائم شدہ ایمس ابتدائی ہچکولوں سے جھوج رہے ہیں، نئی دہلی کے ایمس میں موجود خامیوں کا گہرا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔حالانکہ یہ اہم انسٹیچیوٹ طبی تعلیم اور تحقیق میں مہارت رکھنے والا خصوصی تدریسی اسپتال بننے کا ہدف بنائے ہوئے ہے،کمپوٹرولر آڈیٹر جنرل(سی اے جی)کی سنہ 2018کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ ادارہ محض ایک سُپر اسپیشلٹی اسپتال ہی رہا ہے۔

جہاں ہمارا ملک تعلیم یافتہ طبی ماہرین کی قلت کا سامنا کررہا ہے وہیں ایمس کے تربیت یافتہ 49فیصد ڈاکٹر بہتر مواقع کی تلاش میں بیرون ممالک ہجرت کرکے چلے گئے ہیں اور ملک میں صورتحال یہ ہے کہ پیشہ وروں کی کمی کی وجہ سے کئی مریضوں کو خصوصی جراحی کیلئے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔

ایک تازہ تحقیق کے مطابق ایک ڈاکٹر فی مریض 4سے9 منٹ کا وقت دیتا ہے ۔اسی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ انسٹیچیوٹ کیلئے منظور کی جاتی رہی رقومات کا محض 2فیصد ہی تحقیقی کام پر خرچ کیا گیا ہے جبکہ بیشتر تحقیقی منصوبے کثیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ، غیر اصل تحقیق کاروں، دستخط شدہ معاہدوں کا حصہ ہیں۔

حالانکہ ایمس نے اس رپورٹ میں کئی نتائج پر اعتراض کیا ہے تاہم سی اے جی کی اس رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمس دہلی، بھارت میں صحتِ عامہ کے ڈھانچہ کی جِدکاری کی قیادت کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔یہاں تک کہ اس رپورٹ میں طبی مراکز کے قیام اور اہم طبی سامان کی خریداری میں تاخیر ہونے تک کی نشاندہی کی گئی ہے۔

رشوت ستانی اور مالی بے ضابطگیوں کے کئی معاملات زیرِ تحقیقات ہیں لیکن یہ بات باالکل سچ ہے کہ ایمس دہلی کئی مسائل سے دوچار ہے۔سال 2012-13کے دوران اس اہم انسٹیچیوٹ نے تحقیقی کام کیلئے صرف 1.31 کروڑ روپے حاصل کیے۔یہاں کے کئی اسکالر بیرون ملک چلے گئے ہیں جبکہ سینئر ڈاکٹروں اور ماہرین کو یقین ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ایمس دہلی کا وقار ماند پڑ چکا ہے۔

حالانکہ یہ انسٹیچیوٹ بیماریوں کی تشخیص کے حوالے سے شاندار کارکردگی دکھارہا ہے لیکن بیماروں کی دیکھ بھال کے تئیں سطحی رویہ روا ہے یہاں تک کہ اس ادارے میں اپنا علاج کرانے کیلئے آنے والے ہزاروں بیماروں کو رہائش فراہم کرنے میں حکام ناکام ہورہے ۔

انسٹیچیوٹ کے آوٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ (او پی ڈی)کے کام کاج کے طریقے کی شدید تنقید ہورہی ہے جبکہ ایسا کوئی باضابطہ نظام بھی نہیں بنایا جاسکا ہے کہ جسکے تحت مختلف ریاستوں کے اسپتال پیچیدہ مریضوں کو اس انسٹیچیوٹ میں منتقل کردیتےہیں۔

دوسری جانب ایمس کم شدت کی تکلیف والے مریضوں کو داخل کرنے والا محض ایک عام اسپتال بن کے رہ گیا ہے۔اسکے علاوہ روز افزوں انسٹیچیوٹ کے حوالے سے نت نئے گھوٹالے سامنے آتے ہیں۔ایمس دہلی جیسے مزید اداروں کی یقیناَ ضرورت ہے لیکن بہترین ادارے صرف تب ہی ممکن ہیں، جب ممکنہ حد تک بہترین لوگ انکے ساتھ ہم آہنگ ہوں اور پھر ان اداروں کو مطلوبہ خطوط پر چلایا جائے۔

اگرچہ ملک کے مختلف حصوں میں میڈیکل اداروں کے قیام کا فیصلہ ایک اچھا اقدام ہے لیکن انکے معیار اور کام کاج کے حوالے سے فخر کرنے کے لائق کچھ بھی نہیں ہے۔

نو قائم شدہ 6انسٹیچیوٹس میں بنیادی ڈھانچے کی شدید کمی ہے۔ایک پارلیمانی کمیٹی نے خبردار کیا ہے کہ اگر تجربہ کار پیشہ وروں کی قلت ہوتو بنیادی ڈھانچہ ضائع ہوگا ۔پارلیمانی کمیٹی کی اگست2018کی اس رپورٹ میں پایا گیا ہے کہ 6 ایمس کیلئے منظور شدہ 1 ہزار 830 تدریسی اسامیوں میں سے884(44فیصد)خالی تھیں جبکہ سُپر اسپیشلٹی ڈیپارٹمنٹوں میں تدریسی پیشہ وروں کی شدید قلت تھی۔

ان اداروں کیلئے منظورشدہ 22 ہزار 656غیر تدریسی اسامیوں میں سے 13 ہزار 788 (60فیصد)خالی تھی ںاورعملے کی قلت کی وجہ سے ان اداروں میں تعینات ڈاکٹروں پر اضافی بوجھ ہے۔

کمیٹی نے یہاں تک پایا کہ ایمس ریشی کیش میں گیس پائپ لائینوںاور گند نکاس کی سہولیات نہیں ہیں جبکہ ایمس جودھپور میں ایک بھی ماڈیولر آپریشن تھیٹر کام کی حالت میں نہیں ہے۔صحتِ عامہ کے ماہرین کہتے ہیں کہ ان چلینجز سے کئی اسباق سیکھے جاسکتے ہیں۔حکومت ان نو قائم شدہ انسٹیچیوٹوں کو طبی تعلیم کے بہترین مراکز بنانا چاہتی ہے لیکن فیکلٹی کی قلت، غیر معیاری بنیادی ڈھانچہ اور ناکافی سہولیات پریشانی اور خدشات کی وجہ بنی ہوئی ہیں۔

Last Updated : Mar 1, 2020, 4:26 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.