دارالحکومت دہلی میں واقع چاندنی چوک ملک بھر میں اپنی تاریخی حیثیت کے لیے مشہور ہے جب مغل بادشاہ شاہجہاں نے دہلی کو اپنا دار الخلافت بنانے کے لیے انتخاب کیا تو انہوں نے اپنی بیٹی جہاں آرا کو ایک بازار تعمیر کرنے کی ذمہ داری دی جسے چاندنی چوک کا نام دیا گیا۔ اسی تاریخی چاندنی چوک میں جہاں گرودوارہ سیس گنج اپنی بلند و بالا عمارت کے ساتھ شان و شوکت سے کھڑا ہے۔ وہیں اس کے بغل میں مغلیہ دور میں تعمیر کی گئی سنہری مسجد ہے جو اپنی حالت پر اشک کناں ہے۔
سنہ 1721 اور 22 میں مغلیہ دور حکومت کے امیر روشن الدولہ نے اس مسجد کی تعمیر کرائی تھی جسے رواں برس ہی 300 برس مکمل ہوئے ہیں لیکن اب اس مسجد کی حالت خستہ ہے مسجد کے آثار کمزور ہو چکے ہیں جگہ جگہ سے مسجد کے کھمبے پھٹ رہے ہیں۔ مسجد کی خستہ حالی کو دیکھتے ہوئے مسلم صحر فاؤنڈیشن کی جانب سے دہلی وقف بورڈ کو ایک خط لکھ کر سنہری مسجد کی موجودہ حالت سے آگاہ کرایا گیا اور ساتھ ہی جلد از جلد مسجد کی مرمت و تزئین کاری کرانے کا بھی مطالبہ کیا گیا لیکن کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود اس مسجد میں کوئی مرمت کا کام نہیں کرایا گیا۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے مسجد کے امام اور دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین امانت اللہ خان سے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن کسی سے بھی بات نہیں ہو پائی۔ مسجد کے امام نے مصروفیت کو وجہ بتا کر منع کردیا۔ وہیں دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین نے فون ہی ریسیو نہیں کیا۔ قابل ذکر ہے کہ یہ مسجد تاریخی حیثیت کی حامل ہے۔ اسی مسجد کے صحن میں بیٹھ کر نادر شاہ نے سنہ 1737 میں دہلی کے اندر قتل عام کیا تھا اور کئی ہزار افراد کو اس دنیا فانی سے رخصت کیا تھا ان سب کے باوجود یہ مسجد اپنی خستہ حالی پر اشک کناں ہے۔