جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے داخل کی گئی پٹیشن پر سپریم کورٹ کی چیف جسٹس کی سربراہی والی بینچ نے نوٹس جاری کرکے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر سے تحریری جواب طلب کیا ہے اور 4 ہفتے کے اندر انہیں یہ بتانے کی ہدایت دی ہے کہ انہوں نے اجازت لیے بغیر اس طرح کا سرکلر کیوں جاری کیا؟ ضابطہ کے مطابق سرکلر جاری کرنے سے پہلے آپ کو این آر سی مانیٹرنگ پینل سے اجازت لینی چاہئے تھی۔
اسٹیٹ کوآرڈینیٹر ہتیش دیو شرما کے خلاف یہ عرضی جمعیۃ علماء کی طرف سے وکیل آن ریکارڈ فضیل ایوبی نے داخل کی تھی۔ عرضی میں عدالت سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ اس طرح کا نوٹیفکیشن جاری کرکے درحقیقت اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے عدالت کی ہدایات اور فیصلوں کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے۔ اس لیے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر کے خلاف مقدمہ چلایا جانا چاہبے۔ پٹیشن میں مزید کہا گیا تھا کہ این آر سی کا پورا عمل سپریم کورٹ کی نگرانی میں مکمل ہوا ہے۔ چنانچہ ایسا کر کے ہتیش دیو شرما سپریم کورٹ کی اب تک کی تمام حصولیابیوں پر پانی پھیر دینا چاہتے ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نے یہ دلیل بھی دی کہ 23 جولائی 2019 کو اپنے ایک اہم فیصلے میں عدالت این آرسی میں شامل ناموں کی ری ویریفیکیشن کی عرضی مسترد کرچکی ہے۔
اسی طرح 7 اگست 2019 کو عدالت نے اس وقت کے اسٹیٹ کوآرڈینیٹر پرتیک ہزیلا اور رجسٹرار آف انڈیا کے ایک اخباری انٹرویو دینے پر سخت برہمی کا اظہار کیا تھا اور انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ وہ آئندہ عدالت کی اجازت کے بغیر پریس سے کوئی بات نہیں کریں گے۔
فاضل ججوں نے ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ آپ لوگ سپریم کورٹ کی ہدایت پر ہی این آر سی کا کام دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے آپ لوگ جو کچھ کہیں گے اسے عدالت کی منشاء یا رائے سمجھاجائے گا چنانچہ ایسا کرکے آپ لوگ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں، اس پر ان دونوں نے عدالت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ آئندہ وہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔
جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نے ان دونوں فیصلوں کو بنیاد بنا کر یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب عدالت پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ اب کوئی ری ویریفیکیشن نہیں ہوگا تو اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے کس کی اجازت سے ری ویریفیکیشن کا سرکلر جاری کیا ؟
واضح ہوکہ یہ نوٹیفیکشن این آر سی سے ان لوگوں کو نکال باہر کرنے کے لئے جاری کیا گیا ہے جو مشتبہ ہیں یا ڈی ووٹر ہیں یا پھر فارن ٹریبونل نے جن کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، نوٹیفیکشن میں ریاست کے تمام اضلاع کے رجسٹرار آف سٹیزن رجسٹریشن سے واضح طور پر کہا گیا ہے کہ وہ نہ صرف ایسے لوگوں بلکہ ان کے اہل خانہ (اجداد) کے نام بھی این آر سی سے ہٹا دیں۔
پچھلی سماعت پر جمعیۃ علماء ہند کے وکلاء نے سوال کیا کہ کیا اسٹیٹ کوآرڈینیٹر نے عدالت کو اعتماد میں لیکر ری ویریفیکیشن کروایا ہے؟ اگر نہیں توکیا ایسا کرکے انہوں نے عدالت کے ضابطہ کی خلاف ورزی نہیں کی ہے؟ یہی نہیں 13اگست 2019 کو اپنے ایک فیصلے میں عدالت نے یہ بھی واضح کردیا تھا کہ وہ بچہ جو 2004 سے قبل پیداہوا ہے اگر اس کے والدین میں سے کسی ایک کانام این آرسی میں شامل ہوگا تو اسے بھارتی سمجھاجائے گا، مذکورہ سرکلر اس فیصلے کے بھی سراسرخلاف ہے، کیونکہ اس میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ مشتبہ ہیں ڈی ووٹر ہیں یا پھر فارن ٹریبونل میں جن کے معاملہ التوامیں ہیں وہ سب غیر ملکی ہیں، اس لئے نہ صرف ان کا بلکہ ان کے اہل خانہ کا نام بھی این آرسی سے ہٹادیا جائے۔
وکلاء نے دلیل دی کہ اس بنیادپر اسٹیٹ کوآرڈینیٹرکے خلاف توہین عدالت کا معاملہ بنتا ہے،اس وقت عدالت نے درخواستوں میں ترمیم کرنے کو کہا تھا تاکہ توہین عدالت کی درخواست کو ہٹایا جاسکے۔
آج کی سماعت میں بینچ نے ترمیم شدہ درخواست کو مرکزی معاملہ (این آرسی مانیٹرنگ بینچ) کی درخواستوں میں ضم کردیا اوراسٹیٹ کوآرڈینیٹرکو وجہ بتاؤنوٹس جاری کردی۔
مزید پڑھیں:
بھارت میں مسلمان محفوظ نہیں: حامد انصاری
قابل ذکر ہے کہ جمعیۃعلماء ہند اور آمسو دونوں نے اس متنازعہ سرکلر کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، جمعیۃعلماء ہند اور جمعیۃعلماء صوبہ آسام، آسام شہریت معاملہ میں مذہب سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی بنیادپر مسلسل قانونی چارہ جوئی کرتی آئی ہیں، جس میں انہیں کامیابی ملتی رہی ہے۔