پرشانت بھوشن نے کہا کہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے کہ کسی وکیل کو اس طرح سے ہراساں کیا جائے۔ وکیل اور موکل کے درمیان جو راز ہوتے ہیں وہ ایک بھروسہ پر ٹکے ہوتے ہیں لیکن جس طرح سے پولیس نے محمود پراچا کے دفتر پر چھاپہ ماری کی ہے اس سے یہ صاف ہوگیا کہ اس سے ملک کا جسٹس سسٹم ہی نشانہ پر ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گزشتہ دنوں دہلی کے پریس کلب میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں دہلی فسادات کے متاثرین نے یہ الزام لگایا تھا کہ انہیں اپنی شکایت واپس لینے اور ایک وکیل کے خلاف بیان دینے پر مجبور کیا گیا ہے۔
اس وکیل کا نام محمود پراچا ہے، جن کے دفتر پر دہلی پولیس کے اسپیشل سیل کی چھاپہ مار کارروائی کی روداد بھی سامنے آچکی ہے۔
پولیس افسران کی یہ کارروائی 24 دسمبر کو دوپہر 12 بجے شروع ہوئی جو 25 دسمبر کی صبح 3 بجے تک جاری رہی۔ دہلی پولیس کے اسپیشل سیل نے ان کے دفتر سے ان کا لیپ ٹاپ اور کئی اہم دستاویز بھی ضبط کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
مزید پڑھیں:
دہلی: برتھ سرٹیفیکیٹ فارم میں مذہب کے خانے میں صرف 'ہندو'
حالانکہ اس دوران محمود پراچا نے کہا کہ قانون کے مطابق لیپ ٹاپ کی جانچ تو کی جا سکتی ہے لیکن اسے ضبط نہیں کیا جا سکتا، کیوں کہ یہ ایک وکیل اور اس کے موکلین کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے باوجود دہلی پولیس کے افسران کی بات نہیں مان رہے تھے۔