دہلی: شکشا سمواد 2023، تعلیمی عدم مساوات کو دور کرنے اور تعلیم کے میدان میں مساوی مواقع کو فروغ دینے پر مرکوز ایک ملک گیر پہل ہے، جس کا اہتمام اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن اور سینٹر فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ نے مشترکہ طور پر کیا ہے۔ 20 جون کو پریس کلب آف انڈیا، نئی دہلی میں منعقدہ ایک نشست میں اس کا افتتاح عمل میں آیا۔ شکشا سمواد پروگرام کا مقصد تعلیم کے میدان میں مسلمانوں کے داخلے کی گرتی ہوئی شرح کو دور کرنا ہے۔
پروفیسر نویدیتا مینن نے کہا کہ " تعلیم، تبدیلی کا ایک ایسا عمل ہے جو منطقی طرز فکر کو فروغ دیتی ہے اور مواقع کی ایک دنیا کے دروازے کھول دیتی ہے، اس تعلیم کو تمام افراد کے لیے قابل رسا ہونا چاہیے۔ تاہم حالیہ اے آئی ایس ایچ ای سروے 2020-21 نے ایک مایوس کن حقیقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ایک طرف اعلیٰ تعلیم میں ایس سی اور ایس ٹی کے طلبا کے داخلہ کی شرح میں بالترتیب 4.2 فیصد اور ، 11.9 فیصد، جبکہ او بی سی کی شرح میں 4 فیصد کی بہتری آئی ہے، جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔
دوسری طرف مسلم طلباء کے اندراج میں پچھلے سال کے مقابلہ 8 فیصد کی خطرناک کمی دیکھی گئی ہے، جو کہ تقریباً 1 لاکھ اسی ہزار طلباء کی تعداد بنتی ہے۔ مسلمانوں کی اس مسلسل گرتی شرح کی بنیادی وجوہات پر زور دیتے ہوئے پروفیسر مینن نے کہا کہ "سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی کی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ لیبر مارکیٹ متعصب ہے، جس کے نتیجے میں مسلمانوں میں روزگار کی شرح کم ہوتی ہے۔
مزید برآں مسلمانوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات نے کمیونٹی کی نقل و حرکت کو کافی حد تک محدود کر دیا ہے۔ جو معیاری تعلیم تک ان کی رسائی میں رکاوٹ ہے۔ کویل فاونڈیشن سے وابستہ محقق، فواز شاہین نے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مسلم اساتذہ کی ناکافی نمائندگی پر زور دیا جس کی جانب اے آئی ایس ایچ ای سروے کی رپورٹ اشارہ کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ " کل تعداد میں 56 فیصد جنرل کیٹیگیری کے اساتذہ ہیں۔ ایس سی ایس ٹی اور او بی سی کے اساتذہ بالترتیب 32 فیصد، 9 فیصد، اور 2.5 فیصد ہیں جبکہ مسلمانوں کی صرف 5.6 فیصد نمائندگی ہے۔
مزید پڑھیں: مسلم ایجوکیشن اینڈ کیریئر پرموشن سوسائٹی کی جانب سے تقریب کا اہتمام
وہیں صنفی عدم مساوات بھی بہت واضح ہے۔ 100 مرد اساتذہ کے ساتھ محض 75 خواتین اساتذہ ہیں جبکہ 100مسلم مرد اساتذہ کے مقابلہ صرف 59 خواتین نمائندگی کرتی ہیں۔ نان ٹیچنگ اسٹاف میں بھی 100 مردوں کے مقابلہ 34 خواتین موجود ہیں۔ سال 2006 میں پیش کی گئی سچر کمیٹی جس میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت کو ملک کی سب سے پسماندہ کمیونٹیز کے ساتھ سے موازنہ کیا گیا ہے، اس رپورٹ کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے، ایس آئی او کے نیشنل سکریٹری عبداللہ فیض نے اس سلسلے میں فوری کارروائی کی سخت ضرورت پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ "مسلم طلباء کی تعلیم چھوڑنے کی موجودہ شرح 23.1 فیصد ہے، جو قومی اوسط سے زیادہ ہے۔ مسلم طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں ان کی ترقی اور مدد کے لیے مرکوز پالیسیوں اور پروگراموں کی ضرورت ہے"۔ سی ای آر ٹی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر روشن محی الدین نے تعلیمی عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے شکشا سمواد کے ذریعے شروع کیے گئے جامع اقدامات کا تعارف کروایا۔ انہوں نے کہا کہ "شکشا سمواد میں راؤنڈ ٹیبل گفتگو اور کیریئر گائیڈنس پروگرام سے لے کر اسکل ڈیولپمنٹ ورکشاپس، اسکالرشپ میں مدد، اور مینٹرشپ جیسے پروگراموں کے ذریعے ہم طلبا کے لئے ایک معاون ماحول کی فراہمی کی کوشش کر رہے ہیں، تاکہ اس بڑھتے خلا کو پر کیا جا سکے۔
انہوں نے حکومت سے کئے گئے اہم مطالبات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ چند امور ایسے ہیں جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔ ان میں مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کی بحالی، مسلمانوں کے اندراج کی گرتی ہوئی شرح کے بارے میں انکوائری، اقلیتوں پر مرکوز اضلاع (جیسے کشن گڑھ، سنبھل وغیرہ) میں یونیورسٹیوں کے قیام، تعلیمی اداروں میں امتیازی سلوک کے خلاف اقدامات، تعلیم کے زعفرانی کرن کی روک تھام، مسلم کمیونٹی میں اندراج کی شرح کو فروغ دینے کے لیے موثر پالیسیوں کا نفاذ وغیرہ شامل ہیں۔