جے این یو کے سابق طلبأ رہنما عمر خالد سے تقریباً تین گھنٹے تک کی پوچھ گچھ کے بعد اسپیشل سیل نے ان کا موبائل فون بھی ضبط کر لیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق گزشتہ 6 مارچ کو ایس آئی اروند کو ملی اطلاع پر کرائم برانچ میں فساد اور سازش کا ایک کیس درج کرایا گیا تھا۔
ایف آئی آر میں اروند کمار نے کہا ہے کہ '23 تا 25 فروری کو ہوئے فسادات کے لیے پہلے سے ہی سازش رچی گئی تھی، اس میں عمر خالد، دانش اور ان کے دو ساتھی الگ الگ تنظیموں سے ملے ہوئے تھے۔ عمر خالد نے یہاں پر لوگوں کو بھڑکانے کے لیے دو الگ الگ جگہوں پر تقریریں کیں اور لوگوں سے اپیل کی کہ راستوں کو اس وقت مسدود کر دیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت آئے ہوئے ہوں کیونکہ اس سے یہ معاملہ عالمی سطح پر جائے گا کہ کس طریقے سے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ کیا جارہا ہے۔'
اس معاملے کو درج کر لینے کے بعد جانچ کی ذمہ داری پولیس کمشنر ایس این شریواستو نے اسپیشل سیل کے سپرد کر دی تھی، سازش کو لے کر اسپیشل سیل کی ٹیم جانچ کر رہی تھی اور اس ایف آئی آر میں بعد میں یو اے پی اے ایکٹ لگایا گیا تھا۔ اس معاملے میں میران حیدر، صفورہ زرگر، دانش کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔
عدالت میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں کرائم برانچ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ آٹھ جنوری کو طاہر حسین کی ملاقات عمر خالد اور خالد سیفی سے ہوئی تھی اور عمر خالد نے ان سے کچھ بڑا کرنے کے لیے تیار رہنے کو کہا تھا، اس میں پی ایف آئی سے مدد طلب کرنے کی بھی بات کہی گئی ہے۔
یہ تمام باتیں کڑکڑ ڈوما کورٹ میں داخل کردہ چارج شیٹ میں کہی گئی ہے۔
اس معاملے میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے عمر خالد کو پوچھ گچھ کے لیے نوٹس روانہ کیا تھا، سنیچر کو عمر خالد اپنے وکیل کے ہمراہ لودھی کالونی میں واقع اسپیشل سیل کے دفتر پہنچے۔
یہاں تقریباً 3 گھنٹے تک عمر خالد سے بات چیت کی گئی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ دہلی میں رونما ہوئے فسادات کے دوران وہ کہاں پر تھے، اس کے علاوہ جامعہ میں ہوئے تشدد میں ان کا کیا کردار تھا؟
پوچھ گچھ کے بعد عمر خالد کو چھوڑ دیا گیا لیکن اسپیشل سیل نے ان کا موبائل فون ضبط کر لیا ہے۔