ETV Bharat / state

دہلی فسادات کیس میں عمر خالد سے تین گھنٹوں تک کی گئی پوچھ گچھ

شمال مشرقی دہلی میں رونما ہوئے فسادات کے تعلق سے دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے جے این یو کے سابق طلبأ رہنما عمر خالد سے تقریباً 3 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی۔

image
image
author img

By

Published : Aug 2, 2020, 12:22 PM IST

جے این یو کے سابق طلبأ رہنما عمر خالد سے تقریباً تین گھنٹے تک کی پوچھ گچھ کے بعد اسپیشل سیل نے ان کا موبائل فون بھی ضبط کر لیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ 6 مارچ کو ایس آئی اروند کو ملی اطلاع پر کرائم برانچ میں فساد اور سازش کا ایک کیس درج کرایا گیا تھا۔

دہلی فسادات کیس میں عمر خالد سے تین گھنٹوں تک کی گئی پوچھ تاچھ

ایف آئی آر میں اروند کمار نے کہا ہے کہ '23 تا 25 فروری کو ہوئے فسادات کے لیے پہلے سے ہی سازش رچی گئی تھی، اس میں عمر خالد، دانش اور ان کے دو ساتھی الگ الگ تنظیموں سے ملے ہوئے تھے۔ عمر خالد نے یہاں پر لوگوں کو بھڑکانے کے لیے دو الگ الگ جگہوں پر تقریریں کیں اور لوگوں سے اپیل کی کہ راستوں کو اس وقت مسدود کر دیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت آئے ہوئے ہوں کیونکہ اس سے یہ معاملہ عالمی سطح پر جائے گا کہ کس طریقے سے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ کیا جارہا ہے۔'

اس معاملے کو درج کر لینے کے بعد جانچ کی ذمہ داری پولیس کمشنر ایس این شریواستو نے اسپیشل سیل کے سپرد کر دی تھی، سازش کو لے کر اسپیشل سیل کی ٹیم جانچ کر رہی تھی اور اس ایف آئی آر میں بعد میں یو اے پی اے ایکٹ لگایا گیا تھا۔ اس معاملے میں میران حیدر، صفورہ زرگر، دانش کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

عدالت میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں کرائم برانچ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ آٹھ جنوری کو طاہر حسین کی ملاقات عمر خالد اور خالد سیفی سے ہوئی تھی اور عمر خالد نے ان سے کچھ بڑا کرنے کے لیے تیار رہنے کو کہا تھا، اس میں پی ایف آئی سے مدد طلب کرنے کی بھی بات کہی گئی ہے۔

یہ تمام باتیں کڑکڑ ڈوما کورٹ میں داخل کردہ چارج شیٹ میں کہی گئی ہے۔

اس معاملے میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے عمر خالد کو پوچھ گچھ کے لیے نوٹس روانہ کیا تھا، سنیچر کو عمر خالد اپنے وکیل کے ہمراہ لودھی کالونی میں واقع اسپیشل سیل کے دفتر پہنچے۔

یہاں تقریباً 3 گھنٹے تک عمر خالد سے بات چیت کی گئی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ دہلی میں رونما ہوئے فسادات کے دوران وہ کہاں پر تھے، اس کے علاوہ جامعہ میں ہوئے تشدد میں ان کا کیا کردار تھا؟

پوچھ گچھ کے بعد عمر خالد کو چھوڑ دیا گیا لیکن اسپیشل سیل نے ان کا موبائل فون ضبط کر لیا ہے۔

جے این یو کے سابق طلبأ رہنما عمر خالد سے تقریباً تین گھنٹے تک کی پوچھ گچھ کے بعد اسپیشل سیل نے ان کا موبائل فون بھی ضبط کر لیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق گزشتہ 6 مارچ کو ایس آئی اروند کو ملی اطلاع پر کرائم برانچ میں فساد اور سازش کا ایک کیس درج کرایا گیا تھا۔

دہلی فسادات کیس میں عمر خالد سے تین گھنٹوں تک کی گئی پوچھ تاچھ

ایف آئی آر میں اروند کمار نے کہا ہے کہ '23 تا 25 فروری کو ہوئے فسادات کے لیے پہلے سے ہی سازش رچی گئی تھی، اس میں عمر خالد، دانش اور ان کے دو ساتھی الگ الگ تنظیموں سے ملے ہوئے تھے۔ عمر خالد نے یہاں پر لوگوں کو بھڑکانے کے لیے دو الگ الگ جگہوں پر تقریریں کیں اور لوگوں سے اپیل کی کہ راستوں کو اس وقت مسدود کر دیں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھارت آئے ہوئے ہوں کیونکہ اس سے یہ معاملہ عالمی سطح پر جائے گا کہ کس طریقے سے بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ برتاؤ کیا جارہا ہے۔'

اس معاملے کو درج کر لینے کے بعد جانچ کی ذمہ داری پولیس کمشنر ایس این شریواستو نے اسپیشل سیل کے سپرد کر دی تھی، سازش کو لے کر اسپیشل سیل کی ٹیم جانچ کر رہی تھی اور اس ایف آئی آر میں بعد میں یو اے پی اے ایکٹ لگایا گیا تھا۔ اس معاملے میں میران حیدر، صفورہ زرگر، دانش کو گرفتار بھی کیا گیا تھا۔

عدالت میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں کرائم برانچ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ آٹھ جنوری کو طاہر حسین کی ملاقات عمر خالد اور خالد سیفی سے ہوئی تھی اور عمر خالد نے ان سے کچھ بڑا کرنے کے لیے تیار رہنے کو کہا تھا، اس میں پی ایف آئی سے مدد طلب کرنے کی بھی بات کہی گئی ہے۔

یہ تمام باتیں کڑکڑ ڈوما کورٹ میں داخل کردہ چارج شیٹ میں کہی گئی ہے۔

اس معاملے میں دہلی پولیس کی اسپیشل سیل نے عمر خالد کو پوچھ گچھ کے لیے نوٹس روانہ کیا تھا، سنیچر کو عمر خالد اپنے وکیل کے ہمراہ لودھی کالونی میں واقع اسپیشل سیل کے دفتر پہنچے۔

یہاں تقریباً 3 گھنٹے تک عمر خالد سے بات چیت کی گئی اور ان سے یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ دہلی میں رونما ہوئے فسادات کے دوران وہ کہاں پر تھے، اس کے علاوہ جامعہ میں ہوئے تشدد میں ان کا کیا کردار تھا؟

پوچھ گچھ کے بعد عمر خالد کو چھوڑ دیا گیا لیکن اسپیشل سیل نے ان کا موبائل فون ضبط کر لیا ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.