ETV Bharat / state

چھوٹے صنعتی اداروں کو سہارے کی ضرورت

سابق وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے حال ہی میں خبردار کیا ہے کہ بھارت قرض میں ڈوبنے جارہا ہے۔ بھارت کے ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کہ موجودہ بحران کی وجہ چھوٹی اور درمیانہ درجے کی صنعتیں ڈوب جائیں گیں، اگر انہیں سہارا نہ دیا گیا۔ مائیکرو، سمال اور میڈیم صنعتوں، جو کووِڈ وبا پھیلنے سے قبل ہی بحران کا سامنا تھا۔ اُنیں کووِڈ کے دوران ناگزیر حالات میں لاک ڈاون لگائے جانے کی وجہ سے مزید دھچکہ لگا ہے۔

Small industries need support
چھوٹے صنعتی اداروں کو سہارے کی ضرورت
author img

By

Published : Mar 5, 2021, 7:04 PM IST

ریزرو بینک آف انڈیا نے پہلے ہی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ مائیکرو، سمال اور میڈیم صنعتیں اپنی بقا کےلئے شدید دباو سے جوجھ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ان صنعتوں کو وبا کے دوران بھی کوئی مدد نہیں ملی۔ کریڈیٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مرکز کی جانب سے دیا گیا امدادی پیکیج چھوٹی صنعتوں کو سہارا دینے میں ناکام ہوگیا ہے۔ یہ ان چھوٹی صنعتوں کی بد نصیبی ہے کہ انہیں بر وقت مدد نہیں مل پائی۔

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ چھوٹی صنعتوں کو بحالی کےلئے 45 لاکھ کروڑ روپے کی ضرورت ہے۔ جبکہ بینک اُنہیں محض مطلوبہ مدد کا 18 فیصد ہی فراہم کر پائیں گے۔ چھوٹی صنعتیں ملکی معیشت کی مسلسل مدد کرتی رہی ہیں۔ ایک جانب ان صنعتوں نے گیارہ کروڑ روزگار فراہم کئے ہیں اور دوسری جانب وہ وسیع پیمانے پر اشیاء تیار کررہی ہیں لیکن ان کے اس کنٹری بیوشن کے باوجود مصیبت کے ایام میں وہ مدد کےلئے راہ تک رہی ہیں۔ حکومت کو ان صنعتی اداروں کو مدد کے لئے یہ سوچ کر سامنے آنا چاہیے کہ ان کی مدد کرکے در اصل وہ ملکی مفاد کو تقویت پہنچائے گی۔

متعلقہ وزارت کے مطابق ملک میں اس وقت 6.3 کروڑ چھوٹے صنعتی ادارے ہیں جو ملک کے جی ڈی پی میں تیس فیصد کا کنٹری بیوشن فراہم کررہے ہیں۔ پڑوسی ملک چین میں تقریباً 3.8 کروڑ سمال اور میڈیم انڈسٹریز ملک کے جی ڈی پی کا 60 فیصد کنٹری بیوٹ کررہی ہیں۔ چین کو 80 فیصد روزگار اسی شعبے سے فراہم ہورہا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق بیجنگ میں ہر دن سولہ سے اٹھارہ ہزار نئی کمپنیاں معرضِ وجود آرہی ہیں۔ اس کے برعکس بھارت میں چھوٹی صنعتوں کو اس طرح کی حوصلہ افزائی نہ ملنے کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے اور ان کا وجود داو پر لگ گیا ہے۔

صرف چین ہی نہیں بلکہ امریکا، جاپان اور سنگا پور جیسے ممالک میں بھی سمال اور میڈیم سکیل انڈسٹریز کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور اُنہیں ٹیکنالوجی اور دیگر چیزیں فراہم کی جارہی ہیں کیونکہ ان ممالک کو پتہ ہے کہ یہ چھوٹی صنعتیں ان کی معشیت کے لئے کس قدر اہم ہیں۔

کینڈا، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ممالک بھی چھوٹی صنعتوں کے حق میں پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ جرمنی میں روزگار کے مواقعہ اسی لئے وافر مقدار میں موجود ہیں کیونکہ وہاں سمال اور میڈیم صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

باوجود اسکے کہ کئی رپورٹس میں چھوٹی صنعتوں کو مدد کرنے کی سفارشات کی گئی ہیں، یہ مدد سے مسلسل محروم ہیں۔ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز (سی آئی آئی) نے پہلے ہی چھوٹی صنعتوں کو بحالی کا مشورہ دیا ہے۔ اس نے چھوٹی اور درمیانہ درجے کی صنعتوں کو تین سال تک تمام قواعد و ضوابط کی پاسداری کے جھنجھٹ سے آزاد رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان چھوٹی صنعتوں کو تو 59’ منٹوں‘ کے اندر اندر قرضے فراہم کرنے کی منظوری تو مل جاتی ہے لیکن عملی طور پر پیسہ جاری کرنے میں اُنہیں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ مالی مدد کے اعلانات میں خلوص کا فقدان ہے۔ موجودہ حالات میں چھوٹی صنعتوں کو ان کی صلاحیت، ان کے ورکرز کو حاصل سِکل ڈیولپمنٹ ٹریننگ اور بازاروں تک اُن کے مال کی رسائی جیسے عوامل کے تناظر میں اُنہیں مالی مدد فراہم کرنے کی جانی چاہیے۔

ریزرو بینک آف انڈیا نے پہلے ہی اس بات کی تصدیق کی تھی کہ مائیکرو، سمال اور میڈیم صنعتیں اپنی بقا کےلئے شدید دباو سے جوجھ رہی ہیں۔ یہاں تک کہ ان صنعتوں کو وبا کے دوران بھی کوئی مدد نہیں ملی۔ کریڈیٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مرکز کی جانب سے دیا گیا امدادی پیکیج چھوٹی صنعتوں کو سہارا دینے میں ناکام ہوگیا ہے۔ یہ ان چھوٹی صنعتوں کی بد نصیبی ہے کہ انہیں بر وقت مدد نہیں مل پائی۔

تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ چھوٹی صنعتوں کو بحالی کےلئے 45 لاکھ کروڑ روپے کی ضرورت ہے۔ جبکہ بینک اُنہیں محض مطلوبہ مدد کا 18 فیصد ہی فراہم کر پائیں گے۔ چھوٹی صنعتیں ملکی معیشت کی مسلسل مدد کرتی رہی ہیں۔ ایک جانب ان صنعتوں نے گیارہ کروڑ روزگار فراہم کئے ہیں اور دوسری جانب وہ وسیع پیمانے پر اشیاء تیار کررہی ہیں لیکن ان کے اس کنٹری بیوشن کے باوجود مصیبت کے ایام میں وہ مدد کےلئے راہ تک رہی ہیں۔ حکومت کو ان صنعتی اداروں کو مدد کے لئے یہ سوچ کر سامنے آنا چاہیے کہ ان کی مدد کرکے در اصل وہ ملکی مفاد کو تقویت پہنچائے گی۔

متعلقہ وزارت کے مطابق ملک میں اس وقت 6.3 کروڑ چھوٹے صنعتی ادارے ہیں جو ملک کے جی ڈی پی میں تیس فیصد کا کنٹری بیوشن فراہم کررہے ہیں۔ پڑوسی ملک چین میں تقریباً 3.8 کروڑ سمال اور میڈیم انڈسٹریز ملک کے جی ڈی پی کا 60 فیصد کنٹری بیوٹ کررہی ہیں۔ چین کو 80 فیصد روزگار اسی شعبے سے فراہم ہورہا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق بیجنگ میں ہر دن سولہ سے اٹھارہ ہزار نئی کمپنیاں معرضِ وجود آرہی ہیں۔ اس کے برعکس بھارت میں چھوٹی صنعتوں کو اس طرح کی حوصلہ افزائی نہ ملنے کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑرہا ہے اور ان کا وجود داو پر لگ گیا ہے۔

صرف چین ہی نہیں بلکہ امریکا، جاپان اور سنگا پور جیسے ممالک میں بھی سمال اور میڈیم سکیل انڈسٹریز کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے اور اُنہیں ٹیکنالوجی اور دیگر چیزیں فراہم کی جارہی ہیں کیونکہ ان ممالک کو پتہ ہے کہ یہ چھوٹی صنعتیں ان کی معشیت کے لئے کس قدر اہم ہیں۔

کینڈا، جنوبی افریقہ اور برازیل جیسے ممالک بھی چھوٹی صنعتوں کے حق میں پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ جرمنی میں روزگار کے مواقعہ اسی لئے وافر مقدار میں موجود ہیں کیونکہ وہاں سمال اور میڈیم صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔

باوجود اسکے کہ کئی رپورٹس میں چھوٹی صنعتوں کو مدد کرنے کی سفارشات کی گئی ہیں، یہ مدد سے مسلسل محروم ہیں۔ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹریز (سی آئی آئی) نے پہلے ہی چھوٹی صنعتوں کو بحالی کا مشورہ دیا ہے۔ اس نے چھوٹی اور درمیانہ درجے کی صنعتوں کو تین سال تک تمام قواعد و ضوابط کی پاسداری کے جھنجھٹ سے آزاد رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان چھوٹی صنعتوں کو تو 59’ منٹوں‘ کے اندر اندر قرضے فراہم کرنے کی منظوری تو مل جاتی ہے لیکن عملی طور پر پیسہ جاری کرنے میں اُنہیں کافی وقت لگ جاتا ہے۔ مالی مدد کے اعلانات میں خلوص کا فقدان ہے۔ موجودہ حالات میں چھوٹی صنعتوں کو ان کی صلاحیت، ان کے ورکرز کو حاصل سِکل ڈیولپمنٹ ٹریننگ اور بازاروں تک اُن کے مال کی رسائی جیسے عوامل کے تناظر میں اُنہیں مالی مدد فراہم کرنے کی جانی چاہیے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.