دارالحکومت دہلی سے متصل ضلع غازی آباد میں رہنے والے پون سنگھ نے لاک ڈاؤن میں کپڑے کی چلتی پھرتی دکان کھولی ہے۔ جب روزی روٹی کا بحران گہرا ہوا تو اس نے ایک نیا فارمولا نکال لیا۔ پہلے وہ ای رکشہ چلاتے تھے لیکن فی الحال ای رکشہ میں صرف ایک سواری کی اجازت ہے۔ ایسی صورتحال میں معاشی بحران مزید گہرا ہوتا جارہا تھا۔
جب لاک ڈاؤن ہوا تو سب کچھ بند کردیا گیا۔ ایسی صورتحال میں پون سنگھ کا چھ افراد پر مشتمل کنبہ بہت پریشان ہوگیا۔ لاک ڈاؤن میں مراعات کے بعد بھی ای رکشہ چلانا آسان نہیں رہا۔ لیکن پون نے ہمت نہیں ہاری اور اسے ایک خیال آیا۔
جیب میں پیسہ نہیں تھا تو پون سنگھ نے کریڈٹ پر ریڈی میڈ کپڑے خریدے اور اب گلی میں ای رکشہ کے ذریعہ انہیں بیچ رہے ہیں۔ فی الحال اسے ہفتہ وار مارکیٹ قائم کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
ایسی صورتحال میں پون کے لئے چھ افراد پر مشتمل کنبہ پالنا آسان نہیں تھا۔ پون کا کہنا ہے کہ اس چلتی دکان سے فی الحال راشن کا انتظام کیا جارہا ہے۔ وہ ای رکشہ بھی کرایہ پر ہی لیتے ہیں۔
جب سب کچھ دوبارہ چلانے کی اجازت ہوئی اور پھر بھی مایوسی ہاتھ آئی تو پون نے ہمت نہیں ہاری۔ اس نے شوق کا مظاہرہ کیا اور کنبہ نے اسے ہمت دی۔
پون نے سوچا کہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر کوئی نیا آئیڈیا نکالا جائے۔ وہ ہفتہ وار مارکیٹ سے پہلے ہی واقف تھا اور وہ ای رکشہ کا کام کر ہی رہے تھے۔ دونوں کاموں کا امتزاج کرتے ہوئے اس جذبے سے یہ خیال لیا۔ جس کی وجہ سے کام بن گیا۔
یہ ایک مثال ہے ان لوگوں کے لئے جو جلد ہار مان لیتے ہیں اور حالات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتے ہے۔ پون کا خیال ہے کہ جب لاک ڈاؤن مکمل طور پر کھل جائے گا تو وہ اپنے دونوں کاموں کو ملا کر اچھی کمائی کر سکیں گے۔