پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے چیئرمین او ایم اے عبد السلام نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شمال مشرقی دہلی میں ہوئے تشدد پر دہلی اقلیتی کمیشن کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ہندوتوا جماعتوں کی فرقہ وارانہ اشتعال انگیزی ہی تشدد کا باعث بنی ہے اور دہلی پولیس نے مجرموں کو بچانے کے لئے بے قصور لوگوں کو پھنسایا ہے۔
انہوں نے کہا 'کمیٹی کے ذریعہ شواہد جمع کئے جانے اور تشدد کے متاثرین کا انٹرویو لینے کے بعد تیار کی گئی رپورٹ ایک اہم دستاویز ہے۔ رپورٹ کے مطابق دہلی پولیس اور مرکزی حکومت کے دعوے جھوٹے اور ان کی کارروائی مسلم متاثرین کے خلاف ہے'۔
انہوں نے کہا 'شہریت ترمیمی قانون پاس ہونے کے بعد دہلی میں ہوئے مظاہروں میں ہر طبقے کے لوگ شامل تھے اور شاہین باغ اور شمال مشرقی دہلی میں ہونے والے مظاہرے انتہائی پرامن طریقے سے چل رہے تھے'۔
رپورٹ کے مطابق دسمبر 2019 سے لے کر فروری 2020 کے دوران دہلی اسمبلی انتخابات کے لئے انتخابی مہم میں بی جے پی رہنماوں کی طرف کئی ایسے بیان اور تقرریاں سامنے آئی تھیں جن میں لوگوں کو سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف تشدد کے لئے کھلے عام مشتعل کیا گیا تھا'۔
رپورٹ میں اس شبہہ پر بھی زور دیا گیا ہے کہ یہ تشدد منصوبہ بند تھا۔ مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں باہر سے بھی لوگوں کو بلایا گیا تھا۔ رپورٹ میں 11 مساجد، پانچ مدارس، ایک مزار اور ایک قبرستان کا ذکر کیا گیا ہے جن پر تشدد کے دوران حملہ کیا گیا اور انہیں نقصان پہنچایا گیا۔
کمیٹی نے جن لوگوں سے انٹرویو لیا انہوں نے بتایا 'پولیس اس وقت بھی مداخلت کرنے یا لوگوں کی مدد کرنے سے جھجھک رہی تھی جب ان کی آنکھوں کے سامنے تشدد ہو رہا تھا۔ کئی موقعوں پر پولیس خود بھی تشدد میں شریک رہی اور انہوں نے حملہ آوروں کی حوصلہ افزائی کی۔ کچھ معاملوں میں خود متاثرین کو ہی گرفتار کر لیا گیا جب وہ نامزد افراد کے خلاف مقدمہ درج کروانے کے لئے آگے آئے'۔
رپورٹ میں پاپولر فرنٹ سمیت دیگر مسلم تنظیموں، قائدین اور افراد کے تشدد میں شامل ہونے کے پولیس کے بے بنیاد الزامات کو مسترد کیا گیا ہے۔