روزہ ہر مسلمان عاقل وبالغ مرد وعورت پر فرض ہے۔ کورونا وائرس کی وجہ سے اس مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ گزشتہ تمام برسوں سے بالکل مختلف ہے، تمام عبادت گاہیں بند ہیں، روزہ دار اپنے گھروں میں ہی عبادت میں مشغول ہیں۔
ماہِ رمضان المبارک کا پہلاعشرہ (رحمت) ہم سے جدا ہوگیا۔ اب دوسرا عشرہ، ’’بخشش و مغفرت‘‘ اپنی تمام تر فیوض و برکات، رحمت و مغفرت کےساتھ سایہ فگن ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں کہ جب رمضان آیا تو سرور کائنات ۖ نے فرمایا ۔
تمہارے پاس رمضان آگیا ہے یہ برکت کا مہینہ ہے اللہ تعالی تم کو اِس میں ڈھانپ لیتا ہے اِس میں رحمت نازل ہو تی ہے اور گناہ جھڑ جاتے ہیں اور دعا قبول ہو تی ہے، اللہ تعالی اِس مہینہ میں تمھاری رغبت کو دیکھتا ہے سو تم اللہ کو اس مہینہ میں نیک کام کرتے دکھاؤ کیونکہ وہ شخص بدبخت ہے جو اس مہینہ میں اللہ کی رحمت سے محروم رہا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ” تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی، ایک روزہ دار کی افطار کے وقت، دوسرے عادل بادشاہ کی اور تیسرے مظلوم کی۔
دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “اے لوگو ! اتنی ہی عبادت کرو جو قابلِ برداشت ہو کیونکہ اللہ ثواب دینے سے نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم خود عبادت کرنے سے اُکتا جاؤ گے۔‘‘
بخاری شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے رمضان کے روزے ایمان اور احتساب کی نیت سے رکھے تو اس کے گذشتہ گناہ بخش دیے گئے۔
سورۂ یونس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کا ذکر فرمایا ! عذاب ان کے قریب آچکا تھا اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیا تھا، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق ہوئی اور ساری قوم اپنے گھروں سے باہر نکل آئی اور اللہ تعالیٰ سے رو کر اور گڑگڑا کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان پر سے عذاب کو ہٹا دیا۔
بے شک ﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بخشنے کے لیے دین میں بہت سی آسانیاں فرمائی ہیں۔ ایسی ہی ایک نعمت ماہ رمضان کی صورت میں مسلمانوں کو عطا ہوئی جس میں خالق کائنات نے واضع کر دیا ہے جو لوگ ماہ رمضان کے روزے احکام شریعت کے مطابق رکھتے ہیں اور تمام برائیوں سے بچتے رہے ہیں ان کے واسطے دنیا اورآخرت کی بھلائی اور بڑا اَجر ہے۔ جنہیں اﷲ کی ذات انعام واَجرسے نواز دے وہی پرہیزگار اور متقی لوگ ہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمروؓ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزے اور قرآن دونوں بندے کے لیے شفاعت (سفارش) کریں گے۔ روزے عرض کریں گے: ’’ اے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج میری سفارش اس کے حق میں قبول فرما اور قرآن کہے گا کہ، ’’ میں نے اس بندے کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرما، چناں چہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش بندے کے حق میں قبول فرمائی جائے گی۔‘‘
یقیناً ہم سے پہلے عشرہ میں بے شمار کوتاہیاں اور ناقدری ہوئی ہوں گی۔ آئیے اب مغفرت کے اس دوسرے عشرے میں شب کی تنہائیوں میں اشک ندامت بہا کر اپنے گناہوں پر شرمندگی کا اظہارکریں اور اپنے پروردگار کو راضی کرلیں پتہ نہیں اگلے سال رحمت، مغفرت اور نجات کے یہ عشرے میسربھی آتے ہیں یا نہیں؟
حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا’’ جبرئیلِ امین میرے پاس آئے اور جب میں نے منبر کے پہلے درجے پر قدم رکھا، تو انہوں نے کہا کہ ہلاک ہو جائے وہ شخص، جس نے رمضان المبار ک کا مہینہ پایا اور پھر بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۔ میں نے ا ُس پر آمین کہا ۔‘‘ (الترغیب والترہیب)
رمضان المبارک کے دوسرے عشرے میں جو سب سے اہم واقعہ پیش آیا، وہ حق و باطل کے درمیان ایک عظیم معرکہ تھا، جو بدر کے مقام پر پیش آیا اور جس نے مجموعی طور پر مسلمانوں کے حالات پر بڑے مثبت اثرات مرتب کیے۔
ایک طرف انہیں سیاسی، معاشرتی اور اخلاقی برتری نصیب ہوئی، دوسری طرف ان کی بہادری، شجاعت اور جواں مردی نے مدینے اور اس کے آس پاس موجود یہودی اور عیسائی قبائل کی سورشوں کو بھی دبا دیا۔
اس کے ساتھ ہی ابوجہل سمیت نام ور روسائے قریش اور سردار اسلامی تیغِ جہاد کا لقمہ بن کر عبرت کا نشان بن گئے اور کفارِ مکّہ کا غرور و تکبّر خاک میں مل گیا۔
کفرواسلام کی اس پہلی باقاعدہ جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن نے اس فتح عظیم کو ’’یوم فرقان‘‘ کے نام سے یاد کیا اور اللہ نے قرآن کی ایک سورت، سورۃ الانفال میں غزوۂ بدر کے واقعے کی تفصیل بیان کرکے اسے تمام غزوات میں امتیازی درجہ عطا فرمایا۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا: رمضان المبارک کے درمیانے دس روز باعث مغفرت ہیں۔
مغفرت کے معنی گناہوں کی بخشش ہے گویا جب اللہ تعالیٰ کسی گنہگار کو پہلے دس دنوں کی رحمت کے بہانے سے اپنے دروازے پر آنے کی اجازت دے دیتے ہیں تو وہ بندہ اس کی نظرکرم کا مرکز بن جاتا ہے۔ اس سایہ شفقت میں پناہ لے کر کچھ لوگ اللہ کے ذکر میں مصروف ہو جاتے ہیں اور اس کی رحمت کو جوش آتا ہے اور جوش رحمت کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ صبح کا بھولا اگر شام کو گھر واپس لوٹ آئے تو اس کو بھولا نہیں کہتے۔ اس لئے عالیٰ اس کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں گویا پچھلا نامہ سیاہ قلم زد ہوا اور یہ بھی صرف رمضان المبارک کی کرشمہ سازی ہے کہ اس کے ہر دن، ہر رات اور ہر ہر ساعت کے کچھ اپنے انوار ہیں جن سے ہر صاحب دل فیضیاب ہوتا ہے۔ یہ فضیلت بھی رمضان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے کے حصہ میں نہیں آتی۔