جی ہاں! گاندھی جی نے خواتین کو ان کا صحیح مقام بتایا تھا اور انہیں جنگ آزادی کی جدوجہد میں بھی شامل کیا تھا۔
فی الحال بھارت سمیت پوری دنیا میں خواتین سیاست سے دور نظر آتی ہیں جبکہ سماجی کارکن روچیرا گپتا کا ماننا ہے کہ 'موجودہ دور کے برعکس گاندھی جی خواتین کو برطانوی سامراج کے خلاف جنگ آزادی کی تحریک میں حصہ لینے کی ترغیب دیتے تھے۔'
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہوگا کہ گاندھی جی کی جانب سے شروع کی گئی 'عدم تشدد ستیہ گرہ' تحریک کے محرکات میں ان کی والدہ پتلی بائی اور اہلیہ کستوربا بائی بھی شامل تھیں۔ گاندھی جی کے مطابق اس تحریک کو چلانے کے لیے انہیں اپنی ماں اور اہلیہ سے ہمت ملتی تھی۔
گاندھی جی کی عدم تشدد تحریک سے جنوبی آفریقہ سے لے کر بھارت میں کئی خواتین وابستہ ہوئیں۔
گاندھی جی نے کانگریس کی سرگرمیوں کوعوامی تحریک بناتے ہوئے خواتین کو بھی جنگ آزادی کی مہم سے جوڑا اور انہوں نے ہر موقع پر خواتین کی ہمت افزائی کی۔
گاندھی جی کی کوششوں سے خواتین کی زندگیوں میں کئی قسم کے سدھار آئے جبکہ انہی کوششوں کی وجہ سے مرد بھی خواتین کو عزت کے ساتھ مساوی درجہ دینے کی طرف مائل ہوئے۔
گاندھی جی نے ہر ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کا مشورہ خواتین کو دیا تھا جس کی وجہ سے جنوبی افریقہ میں آشرم احتجاج رونما ہوا تھا۔
بھارت میں گاندھی کی پہلی موافق کسان جدوجہد کا چمپارن سے آغاز ہوا تھا جس میں 25 کے منجملہ 12 خواتین سماجی کارکنوں نے شرکت کی تھیں۔
چمپارن سے شروع ہوئی مہم کی وجہ سے نمک ستیہ گرہ اور بھارت چھوڑو جیسی دیگر تحریکوں کا جنم ہوا تھا۔
گاندھی جی کی قیادت میں سنہ 1919 میں احمدآباد میں ٹیکسٹائل مزدوروں نے احتجاجی مہم چلائی تھی اور سنہ 1921 میں سول نافرمانی احتجاج کا آغاز ہوا تھا۔ ان دونوں احتجاجی پروگرامز میں خواتین کی بڑی تعداد نے حصہ لیا تھا۔
گاندھی جی کے مطابق کسی بھی تحریک میں خواتین کی شمولیت اس کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے۔
گاندھی جی کی ہر تحریک میں خواتین کو نمایاں مقام حاصل ہوتا تھا جبکہ خواتین بھی جوش و خروش کے ساتھ ان تحریک سے جڑتی تھیں۔ اس کے علاوہ خواتین سماجی کاموں میں بھی حصہ لیتی تھیں جس میں کپڑے بنانا اور چرخہ چلانے کے کام شامل تھے۔
چرخہ چلا کر مالی طور پر مستحکم ہونے کا گاندھی نے خواتین کو مشورہ دیا تھا۔ گاندھی جی خواتین کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی ترغیب دیتے تھے۔
سروجنی نائیڈو کو سنہ 1925 میں کانگریس کا صدر منتخب کیا گیا تھا جبکہ پہلی بار کسی خاتون کو کانگریس کے صدر کی حیثیت سے منتخب کرنے میں گاندھی جی نے اہم رول ادا کیا تھا۔ وہیں دوسری جانب عالمی سطح پر خاتون کو کسی سیاسی جماعت کا رہنما بنانے کا رجحان کم پایا جاتا تھا۔
گاندھی جی نے سنہ 1919 میں منعقد انتخابات میں خواتین کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لیے ہمت افزائی کی تھی اور سنہ 1931 میں گاندھی جی کی ایما پر کانگریس نے ایک قراردار کو منظور کرتے ہوئے خواتین کو برابر کے حقوق دینے کا مطالبہ کیا تھا۔
واضح رہے کہ ان دنوں یورپ کے متعدد ممالک میں خواتین کو رائے دہی تک کا حق حاصل نہیں تھا۔
گاندھی جی نے جنگ آزادی کے ساتھ ساتھ سماجی تحریکوں کو بھی شروع کیا تھا۔ سنہ 1933 میں گاندھی جی نے سماج میں دلتوں کو برابر کا مقام دلانے کے مقصد سے ہریجن ترقیاتی یاترا کا آغاز کیا تھا جس میں دلت طبقات کی خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔
گاندھی جی کی مختلف تحریکوں سے خواتین اس قدر متاثر تھیں کہ وہ ان تحریکوں کو آگے بڑھانے کےلیے اپنے زیورات کا عطیہ بھی دے دیتی تھیں۔
ڈانڈی ستیہ گرہ مہم کے دوران متعدد خواتین کو گرفتار کیا گیا جبکہ کستوربا گاندھی سمیت 37 خواتین نے سابرمتی آشرم کے باہر نمک تیار کرنے کی مہم چھیڑی تھی جو قانون کی خلاف ورزی تھی۔ اس تحریک میں سروجنی نائیڈو، کملا دیوی کے علاوہ کئی خواتین نے جوش و خروش کے ساتھ حصہ لیا تھا۔
گاندھی جی کی شروع کردہ عدم تعاون خلافت تحریک میں مسلم خواتین نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور مسلم خواتین گاندھی جی کا بیحد احترام کیا کرتی تھیں۔
سنہ 1942 میں گاندھی جی نے 'کوئٹ انڈیا' کا نعرہ دیا تھا۔ اس تحریک میں ارونا آصف علی نے نمایاں کردارادا کیا جبکہ اوشا مہتا نے اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے خفیہ ریڈیو بھی چلایا تھا۔
آزادی کے بعد خواتین کو وزرا اور گورنر کے عہدوں پر بھی فائز کیا گیا یہاں تک کہ ملک کے آئین کو بناتے وقت راج کماری، امرت کور اور درگابائی دیشمکھ بھی موجود تھیں۔ بھارت کے آئین میں خواتین کو رائے دہی کا حق فراہم کیا گیا جبکہ اس دور میں ترقی یافتہ ممالک میں خواتین کو رائے دہی کا حق حاصل نہیں تھا۔
گاندھی جی کا خواتین سے متعلق ایک مشہور قول ہے کہ ’ایک مرد صرف خود کو سنبھالتا ہے جبکہ ایک عورت سارے گھر کو سنبھالتی ہیں‘‘۔
گاندھی جی کے روشن خیالات سے خواتین بیحد متاثر تھیں اور وہ گاندھی جی کے آزاد نظریات کو اپناتی تھیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کئی مشہور مورخین کے مطابق چین اور روس انقلاب سے زیادہ خواتین نے بھارت کی تحریک آزادی میں حصہ لیا۔
خواتین کے نزدیک گاندھی جی کے احترام کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ گاندھی جی کے ایک قریبی رشتہ دار نے اپنی کتاب کا عنوان 'باپوجی میری ماں ہے' رکھا تھا۔