شعبہ اردو کے پروفیسر ڈاکٹر زین رامش نے بتایا کہ کیفی اعظمی اپنے فلمی نغموں میں ادبی فن پاروں کو اس انداز میں پیش کرتے تھے کہ اس میں ان کی جھلک صاف نظر آتی تھی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیفی اعظمی ان قلمکاروں میں سے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری کا مقصد و محور عوامی مسائل کو بنایا تھا۔ انہوں اپنی زندگی معاشرے کے کمزور سے کمزور انسان کی جان، مال، عزت و آبرو کی فکر میں صرف کی۔
اس کے علاوہ دہلی اردو اکادمی نے کیفی اعظمی کے صد سالہ یوم ولادت پر جشن کیفی کا انعقاد بھی کیا۔ جس میں سیمینار اور مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس جشن میں سید اختر حسین رضوی، کیفی اعظمی کی دختر شبانہ اعظمی اور ان کے شوہر معروف قلمکار جاوید اختر نے بطور خاص شرکت کی تھی۔
10مئی 2002 کو ممبئی میں 83 سال کی عمر میں یہ عظیم شاعر کیفی اعظمی ہمارے درمیان سے رخصت ہو گیا۔ لیکن وہ اپنی شاعری سے انمٹ نقوش لوگوں کے دلوں پر چھوڑ گئے جس کو کبھی مٹایا یا بھلایا نہیں جا سکتا۔
مزید پڑھیں:
خصوصی رپورٹ: شعبۂ اردو میں اساتذہ کے بغیر پڑھائی کیسے؟
کیفی اعظمی کو ساہتیہ اکادمی، فلم فیئر فار بیسٹ اسٹوری، بیسٹ ڈائلاگ اور نیشنل فلم ایوارڈ فار بیسٹ اسٹوری، بیسٹ لیرِکس جیسے کئی ایوارڈوں سے نوازا گیا تھا۔