رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی دینی مدارس کے سفیر ملک کے بڑے شہروں کے ساتھ ساتھ قومی دارالحکومت دہلی کا بھی ر خ کرتے ہیں، جہاں مسلم صنعت کاروں، تاجروں، نوکری پیشہ افراد اور چندہ دہندگان سے زکوٰۃ، عطیات، صدقات اور دیگرخیراتی رقوم جمع کرتے ہیں۔
ایک نجی ادارہ کے تخمینہ کے مطابق رمضان کے ایام میں تقریبا 50ہزار سفراء ملک کے بڑے شہروں میں چندہ وصولنے کے مقصد سے جاتے ہیں۔
جمعیۃ علماء ہند، جماعت اسلامی اور جمعیۃ اہل حدیث کے ذریعہ فراہم کردہ معلومات کے مطابق رمضان شروع ہونے سے قبل ہی دینی مدارس کی جانب سے تصدیق ناموں کے لیے درخواستیں آنی شروع ہوجاتی تھیں مگر اس مرتبہ درخواستوں کی آمد بہت ہی محدود ہے۔
جماعت میں تصدیق نامہ جاری کرنے والے ایک شخص نے بتایا کہ’دینی مدارس کے بڑے چندے رمضان کے مہینے میں ہوتے ہیں اور اسی چندہ کے تعاون سے مدرسے چلائے جاتے ہیں لیکن کورونا وائرس کی وجہ سے رمضان میں عوامی چندہ بہت مشکل ہے،جس کا سیدھا اثر ایسے چھوٹے مدرسوں پر پڑنے والا ہے، جو خوردہ چندہ پر منحصر ہوتے ہیں۔ جہاں تک بات بڑے مدرسوں کی ہے تو ان کے لیے تھوڑی راحت ہوسکتی ہے کیونکہ ایسے مدرسوں کا تعارف ہے اور انہیں آن لائن چندہ بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔
جمعیت کے اور رکن جو دینی مدارس کے سفراء کے لیے دہلی میں قیام کا انتظام کرتے ہیں انکے مطابق دہلی میں ہر برس تقریبا 2000 سفیر ہوتے ہیں اور یہ اوکھلا، سیلم پور، مصطفی آباد، حوض رانی، نبی کریم کے علاوہ این سی آر کے علاقے میں چندہ کرتے ہیں لیکن امسال رمضان میں لاک ڈاون ہے تو ظاہر ہے کہ سفراء کا آنا بہت مشکل ہوگا۔
قابل ذکرہے کہ 1992 میں قاضی مجاہد الاسلام بانی اسلامک فقہ اکیڈمی کے ایک سروے کے مطابق مسلم مدارس کو سب سے زیادہ امداد ممبئی، بنگلور اور احمدآباد سے حاصل ہوتی ہے، اس کے علاوہ چھوٹے بڑے درجنوں شہروں سے مدرسوں کو چندہ جاتا ہے اور یہ چندہ عام طورپر رمضان کے مہینے میں کیا جاتا ہے تو ایسے حالات میں دینی مدارس کے لیے یہ برس اقتصادی اعتبار سے کافی زیادہ پریشان کن ہوگا۔