دہلی: مذہبی کمیٹی کا قیام دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کے حکم کے بعد دیا گیا تھا جس کی صدارت دہلی حکومت کے پرنسپل سیکریٹری کر رہے ہیں جبکہ دہلی پولیس کے اسپیشل کمیشنر اور جوائنٹ کمیشنر سمیت دیگر ممبران پر مشتمل ہے. قومی دارالحکومت دہلی کے سیکریٹیریئٹ میں گذشتہ دنوں مذہبی کمیٹی کی ایک میٹنگ منعقد کی گئی تھی جس میں مذہبی کمیٹی کی جانب سے دہلی وقف بورڈ کے زیر انتظام آنے والی تین وقف اراضی کو ہٹانے کے لیے سفارش کی ہے۔ ان جائیدادوں میں دھولہ کنوں میں کچنر جھیل سے منسلک سبز علاقہ میں واقع ایک مسجد ایک مدرسہ اور ایک قبرستان شامل ہے.
مذہبی کمیٹی کا قیام دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کے حکم کے بعد دیا گیا تھا جس کی صدارت دہلی حکومت کے پرنسپل سیکریٹری کر رہے ہیں جبکہ دہلی پولیس کے اسپیشل کمیشنر اور جوائنٹ کمیشنر سمیت دیگر ممبران پر مشتمل ہے. میٹنگ کے بعد جاری نوٹس میں درخواست کی گئی ہے کہ ہے اس کارروائی کے دوران محکمہ پولیس امن و امان کی موجودہ صورتحال کی رپورٹ، عدالتی حکم، تصاویر بشمول گوگل میپس کی ہارڈ کاپی اور سافٹ کاپی جس میں مذکورہ بالا تعمیرات اور ملحقہ علاقوں کی لوکیشن، سائٹ پلان اور دیگر متعلقہ کاغذات تیار کریں تاکہ مذہبی کمیٹی کے اجلاس میں نتیجہ خیز بحث کی جاسکے۔
یہ بھی پڑھیں: Biological Father DNA شادی کے بعد بچے کا ڈی این اے میچ نہیں ہوا تو اسکی کفالت کی ذمہ داری حیاتیاتی والد پر: کورٹ
اس پورے معاملے پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے مشن تحفظ اوقاف کے بانی اور سپریم کورٹ کے وکیل ایڈووکیٹ محمود پراچہ سے بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ یہ معاملہ دہلی وقد بورڈ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے تاہم چیئرمین کا عہدہ کھالی ہونے کے سبب تمام اختیارات فی الحال سی ای او کے پاس ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اس معاملے میں تمام ضروری دستاویزات مذہبی کمیٹی کے سامنے پیش کریں، انہوں نے 123 وقف جائدادوں کے معاملے میں اس سے قبل دہلی وقف بورڈ کا کیس ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے تاہم اس بار ایسا نہ کیا جائے کیونکہ اب تمام تر ذمہ داریاں انہیں پر عائد ہوں گی.