غازی پور بارڈر سمیت دہلی کی متعدد سرحدوں پر زرعی قوانین کی واپسی اور ایم ایس پی کو قانونی شکل دینے کے مطالبے پر کسانوں کا احتجاج گزشتہ تقریباً 4 ماہ سے جاری ہے۔ اس دوران کسانوں کی تحریک کے مقام پر کئی تہوار بھی منائے گئے ہیں۔
غازی پور بارڈر پر جہاں ایک جانب کسان ہولی کے گیت گاتے نظر آئے تو وہیں دوسری جانب کسان ایک دوسرے کے خیموں میں جاکر گُلال اور مٹی سے ان کا تلک بھی کیا۔
بھارتی کسان یونین کے قومی ترجمان اور کسان رہنما راکیش ٹکیت بھی ہولی کے تہوار پر غازی پور بارڈر پر موجود رہے اور وہاں بنے سبھی خیموں میں جاکر کسانوں کو ہولی کی مبارکباد دی۔
اس دوران راکیش ٹکیت نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کے دوران کہا کہ کسان غازی پور بارڈر پر ہولی منا کر حکومت کو پیغام دینا چاہتا ہے کہ حکومت سُدھر جائے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ دیوالی کے بعد موسم سرما میں کسانوں کی پریشانیاں حل ہوسکتی ہیں۔
ہولی کے تہوار کے موقع پر غازی پور بارڈر پر راکیش ٹکیت کی اہلیہ سنیتا دیوی بھی مقام احتجاج پر نظر آئی۔ انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ کسان آج گاؤں میں اپنے گھروں میں رہ کر ہولی کا جشن مناتے لیکن حکومت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے وہ یہاں موجود ہیں۔ سُنیتا دیوی نے کہا کہ حکومت جب چاہے کسانوں کے مسائل حل کرسکتی ہے۔
غازی پور بارڈر پر موجود کسان ایک دوسرے کو رنگ لگاکر سادگی کے ساتھ ہولی منا رہے ہیں۔ در اصل کسانوں نے فیصلہ کیا تھا کہ اس بار ہولی سادگی کے ساتھ منایا جائے گی کیونکہ اس تحریک کے دوران تقریباً 300 کسان ہلاک ہوگئے ہیں۔