زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی تحریک کو آج 7 ماہ مکمل ہوگئے۔ حالانکہ حکومت اور کسان رہنماؤں کے مابین متعدد بار بات چیت ہوئی لیکن مسئلہ کا حل نہیں نکل سکا۔
کسانوں کی تحریک کو لے کر بھارتیہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت نے کہا کہ 'آج اس تحریک کو 7 ماہ مکمل ہوچکے ہیں، گزشتہ دو دن سے بہت سارے لوگ دہلی آرہے ہیں۔ حکومت جب چاہے بات چیت کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'ہماری تحریک جاری رہے گی۔ اس مرتبہ سہارنپور اور مظفر نگر سے ٹریکٹر آئے ہیں۔
وہیں دوسری جانب بھارتیہ کسان یونین کے صدر، نریش ٹکیت نے کہا کہ 'کسان پرامن طور پر اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ کسانوں کی پریشانیوں سے متعلق تمام ریاستوں کے گورنر کو ایک میمورنڈم دیا جائے گا۔'
انہوں نے کہا کہ 'کسانوں کی تحریک کو تقریباً 7 ماہ مکمل ہو رہے ہیں، ملک کا کسان آج ایک بحران سے گزر رہا ہے، لیکن حکومت نے کسانوں کی مشکلات پر توجہ نہیں دی۔'
حکومت اور کسانوں کے مابین آخری مذاکرات 22 جنوری کو ہوئے تھے۔ مذاکرات کے 12 راؤنڈ کے بعد بھی دونوں فریق کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ حکومت نے زرعی قوانین کو حتمی تجویز کے طور پر زیادہ سے زیادہ 1.5 سال کے لیے معطل کرنے کی تجویز کو طلب کیا تھا لیکن کسانوں نے اسے مسترد کردیا۔
کسان مورچہ کا کہنا ہے کہ 'اس تحریک کے آغاز سے لے کر اب تک تحریک میں شامل 470 کسان مختلف وجوہات کی بناء پر اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور اس کے لئے مرکزی حکومت ذمہ دار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: Farmer Protest: کسان رہنما راکیش ٹکیت نے حکومت کو پھر متنبہ کیا
دوسری طرف مرکزی وزیر زراعت نریندر سنگھ تومر نے کہا کہ 'کسان تنظیموں کو اپنا احتجاج ختم کرنا چاہئے۔ ملک کا ایک بہت بڑا حصہ ان قوانین کی حمایت میں کھڑا ہے۔
خفیہ ایجنسی نے کسانوں کی تحریک سے متعلق دہلی پولیس اور دیگر ایجنسیوں کو چوکس کردیا ہے۔