متنازع شہریت (ترمیمی) قانون 9 دسمبر 2019 کو بھارتی پارلیمان کے ایوان زیریں یعنی لوک سبھا سے منظور کروایا گیا اور پھر 11 دسمبر کو ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اس بل کو منظوری مل گئی اور پھر صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کے دستخط کے بعد یہ بل باضابطہ قانون بن گیا۔
![سنہ 2019 کی 11 تاریخ کو بھارت کے راجیہ سبھا میں ترمیم شدہ شہریت قانون منظور کیا گیا](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_rajyasabha.jpg)
شہریت قانون ترمیم کے بعد۔۔۔
دراصل سنہ 1955 کے شہریت قانون میں یہ ترمیم کی گئی ہے جس میں بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان کے ہندو، بودھ، جین، سکھ، مسیحی اور پارسی مذاہب سے تعلق رکھنے والے غیر قانونی تارکین وطن کو بھارت کی شہریت دی جائے گی۔اس میں مسلمانوں کو جگہ نہیں دی گئی ہے بلکہ اب تو یہ واضح ہوچکا ہے کہ دیدہ دانستہ مسلمانوں کو اس سے الگ رکھا گیا ہے۔
![سی اے اے کی مخالفت میں خواتین پیش پیش رہیں](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_pro12.jpg)
اس قانون میں کہا گیا ہے کہ مسلم اکثریتی ممالک کے ان اقلیتی تارکین وطن کو جنہیں اپنے ملک میں مذہب کی بنیاد پر ظلم و جبر اور تفریق کا سامنا کرنا پڑا یا انھیں مذہب کی بنیاد پر تشدد کا خطرہ ہے انہیں بھارت میں شہریت دی جائےگی۔
مودی حکومت جن لاکھوں ہندو غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کے لیے شہریت کا ترمیم شدہ قانون لائی ہے آسام اور شمال مشرقی ریاستوں میں عوام کے شدید مظاہروں کے ساتھ ساتھ خود بی جے پی کے رہنماؤں نے بھی اس کی مخالفت کی ہے۔
مذکورہ قانون کے سلسلے میں حزب اختلاف کا موقف
حیدر آباد سے رکنِ پارلیمان اسد الدین اویسی نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے اس کی کاپی کو پارلیمان میں پھاڑ دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بل میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے سے انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یہ بتایا جائے کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ امتیازی سلوک کیوں؟
انھوں نے یہ بھی کہا کہ حکمراں جماعت بی جے پی کی جانب سے اس قانون کو لانے کا مقصد بنگالی ہندوؤں کا ووٹ حاصل کرنا ہے اور مخلتف نا مناسب ذرائع سے اپنے ووٹ بینک میں اضافہ کرنا ہے اور یہ قانون ہٹلر کے قوانین سے بھی زیادہ برا ہے۔
کانگریس پارٹی کے متعدد سینیئر رہنما بشمول سونیا گاندھی، پی چدمبرم، غلام نبی آزاد، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی واڈرا سمیت بایاں محاذ نے بھی اس قانون کی سخت مخالفت کی اور مظاہرین کے خلاف پولیس کی بربریت پر سخت رد عمل کا اظہار کیا۔ پرینکا گاندھی نے مزید کہا ہے کہ 'جن ریاستوں میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے وہاں متنازع شہریت قانون نافذ نہیں ہونے دیں گے'۔
![کانگریس پارٹی کے سینئر رہنماؤں کا سی اے اے کے خلاف شدید احتجاج](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_collage.png)
مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی پہلی وزیر اعلی رہیں جنہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ مذکورہ قانون کو اپنی ریاست میں نافذ نہیں ہونے دینگی۔ اس کے علاوہ انہوں نے مزید اعلان کیا کہ ان کی ریاست میں قومی آبادی رجسٹر کا بھی بائکاٹ کیا جائےگا۔
![مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی سی اے اے کی سخت مخالف رہی ہیں](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_mamta.jpeg)
کیرالہ حکومت کی طرف سے مذکورہ قانون کے خلاف باضابطہ قرارداد منظور کیا گیا اور اس کے نفاذ کو خارج کیا گیا۔
ریاستی اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پینارائے وجین کا کہنا تھا کہ ترمیم شدہ قانون شہریت بھارتی آئین کی روح اور بنیادی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے اس لیے مرکزی حکومت اس قانون کو واپس لے۔
![کیرالہ کے وزیر اعلی پنرائی وجائن](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_protest.jpg)
کیرالہ سے قبل مغربی بنگال، پنجاب، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ سمیت 6 بھارتی ریاستوں نے متنازع قانون نافذ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
اس بل کے خلاف اقتصادی امور میں نوبل انعام یافتہ ہند نژاد امریکی ابھیجیت بینرجی، ہاورڈ یونیورسٹی میں تاریخ موضوع کے پروفیسر سوگت رائے، بھارت کے سابق چیف جسٹس مارکنڈے کاٹجو کے علاوہ متعدد دانشوران اور ادیبوں نے بھی اپنے اپنے دائرے میں اپنے اپنے انداز پر اس کی پرزور مخالفت اور مذمت کی ہے۔
مذکورہ قانون پر حکمراں جماعت کا موقف
حزب اختلاف کے متعدد اراکین پارلیمان کا کہنا تھا کہ اس میں ایک طرف دستور ہند کی بنیادی دفعات کی خلاف ورزی کی گئی ہے تو دوسری طرف ایک خاص طبقے کو نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔اس سے مستقبل میں اس طبقے کے لیے متعدد مسائل پیدا ہو سکتے ہیں اس لیے یہ قانون جمہوریت کے سراسر خلاف ہے۔
اس کے جواب میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ یہ ذرہ برابر بھی کسی طبقے کے خلاف نہیں ہے اور اس میں کہیں بھی کسی کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے۔
امت شاہ نے دعوی کیا کہ مذکورہ قانون کے نفاذ سے آئین کی خلاف ورزی نہیں ہوگی اور نہ ہی اس کے کسی بھی پہلو سے جمہوریت کو ٹھیس پہنچتی ہے۔
![وزیر داخلہ امیت شاہ نے پارلیمان میں مذکورہ بل پیش کیا](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_amitwa.jpg)
ایوان میں بل پیش کرتے ہوئے وزیر داخلہ امت شاہ نے کانگریس پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور مذکورہ قانون کے تعلق سے کہا تھا کہ اس کی ضرورت اس لیے پڑی کیونکہ کانگریس نے ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیا تھا۔
ملک سراپا احتجاج بن گیا
گیارہ دسمبر2019 کو اس بل کے پاس ہونے اور قانون کی شکل لینے کے بعد سے ہی ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
شمال مشرقی ریاستوں میں احتجاج
خاص طور پر آسام، تریپورہ اور منی پور میں بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے۔ ان مظاہروں میں متعدد لوگ زخمی ہوئے ہیں اور کئی افراد کی موت بھی ہو چکی ہے۔
اس قانون کے خلاف احتجاج میں اب تک 27 سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ سیکڑوں زخمی ہیں۔
دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی سے احتجاج کا ملک گیر آغاز
![احتجاج کے دوران بلند کیا گیا پوسٹر](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_hyd4.jpg)
شدید سردی کے باوجود 15 دسمبر2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ میں سی اے اے کے خلاف یونیورسٹی کے طلبا کی جانب سے پُرامن مظاہرے ہوئے۔ تاہم اسی مظاہرے کے دوران پولیس کی لاٹھی چارج آنسو گیس کے گولے اور انہتائی درجے کی زیادتی میں متعدد طلبہ زخمی ہوئے جس کے بعد سے تا حال جامعہ ملیہ اور وہاں سے متصل علاقہ شاہین باغ میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔
تشدد کے خلاف قومی انسانی حقوق کمیشن کو 1 لاکھ 80 ہزار سے زائد دستخطی میمورنڈم بھیجا گیا ہے۔
طلبا کے احتجاج میں سیاسی رہنماؤں اور فلمی ستاروں نے بھی شرکت کی اور طلبہ کے حوصلے اور جرآت کو سلام کیا۔
مظاہرین ایک طرف شاہین باغ کے مین روڈ پر مستقل چوبیس گھنٹے ڈیوٹی کی مانند بیٹھے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ دوسری جانب جامعہ ملیہ اسلامیہ کے باہر پرعزم مظاہرین مسلسل ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک اس متنازعہ قانون کو حکومت واپس نہیں لیتی وہ وہاں سے ہلیں گے بھی نہیں ۔
اتنی سخت سردی میں بھی ان کے عزم مصمم اور استقامت میں کمی نہیں آ رہی ہے اور آئین وملک کے جمہوری اقدار کی حفاظت کے عزم و نعرے کے ساتھ ان کا احتجاج جاری ہے۔
![ظلم پھر ظلم بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_paint-2.jpg)
مظاہرین نکڑ ناٹک اور کارٹونوں کے ذریعے منفرد انداز میں احتجاج کر رہے ہیں۔فائن آرٹس کے متعدد طلبا نے جامعہ ملیہ کی دیواروں اور سڑکوں پر مختلف نظم، نعرے اور اشعار کو خوبصورت تخلیقی انداز میں تحریر کر کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے۔
تادم تحریر جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شہریت مخالف قانون کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ بڑی تعداد میں طلبہ وطالبات اور مقامی عوام نے زبردست مظاہرہ کیا او رحکومت مخالف نعرے لگائے۔ چھوٹی چھوٹی بچیاں 'ہم لے کر رہیں گے آزادی'۔ 'ہم لڑ کر لیں گے آزادی کے نعرے لگائے۔
![جامعہ کے طلبہ کا تخلیقی انداز میں مظاہرہ](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_1.jpg)
اس سلسلے میں مزید جانکاری کے لیے میں نے 5جنوری بروز اتوار 8بج کر 14 منٹ پر جامعہ ملیہ کے طالب علم عبد الباری برکاتی سے بات چیت کی تو انہوں نے واضح طور پر کہا کہ مظاہرے کے تئیں طلبہ کا حوصلہ اور جذبہ گذشتہ 13 دسمبر سے اب تک بدرجہ اتم برقرار ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اب مظاہرہ اور رنگ پکڑے گا چونکہ کل یعنی 6 جنوری سے جامعہ ملیہ یونیورسٹی جو 15 دسمبر کے پر تشدد مظاہرے کے بعد بند کر دیا گیا تھا وہ کھل رہا ہے تاہم ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ مظاہرہ جاری رہے گا۔
![جامعہ کے زخمی طالب علم عبدالباری](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_abdul.png)
دہلی کے ہی شاہین باغ میں مقیم معروف اور متحرک صحافی صلاح الدین زین کا کہنا ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ اس مظاہرے کا مرکز بنا اور پھر 15 تاریخ کو پولیس کی کاروائی کے بعد شاہین باغ کا پورا علاقہ سراپا احتجاج میں تبدیل ہو گیا اور تا حال خواتین اور بچے وہاں رات دن ایک کر کے دھرنے پر بیٹھے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مظاہرین سے بات کر کے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب تک حکومت مذکورہ متنازع قانون کو واپس نہیں لے لیتی تب تک ان کا احتجاج نہیں تھمے گا۔
جامعہ ملیہ میں پولیس کی بربریت کے خلاف ملک کی مختلف یونیورسٹیز کے طلبہ نے جامعہ کے طلبہ کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاجی ریلی نکالی اور پرزور مظاہرہ کیا۔
احتجاج کرنے والے تعلیمی اداروں میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، آئی آئی ٹی کانپور، بنارس ہندو یونیورسٹی،جادھوپور یونیورسٹی، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دہلی یونیورسٹی وغیرہ سر فہرست ہیں۔
اسی دن یعنی 15دسمبر کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی پولیس کی فائرنگ، آنسو گیس کے گولے اور پتھراؤ کی خبریں آئیں، جس میں پولیس اور مظاہرین دونوں زخمی ہوئے۔
اس کے بعد دہلی کے سیلم پور، اتر پردیش کے مختلف اضلاع، کرناٹک کے منگلور ، مدھیہ پردیش کے مختلف شہروں، چھتیس گڑھ اور پنجاب میں بھی زبردست مظاہرے ہوئے جس میں اتر پردیش میں 22 اور منگلور میں 2 افراد ہلاک ہوئے۔
![حیدرآباد کی معروف دانشگاہ عثمانیہ یونیورسٹی کے کیمپس میں سابق طلبہ کا احتجاج](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_pro1.jpg)
مہاراشٹرا کے مخلتف اضلاع میں بطور خاص عروس البلاد ممبئی میں بھی مرد و خواتین دونوں کی احجاجی ریلی نکلی جس میں سروں کا سمندر نظر آیا۔
بہار میں سی اے اے کے خلاف شدید مظاہرے
ریاست بہار میں بھی متنازعہ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف مختلف تاریخوں میں احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اس دوران پٹنہ کے علاقے پھلواری شریف میں پر تشدد واقعات پیش آئے جن میں مظاہرین کے تقریباً ایک درجن افراد زخمی ہو گئے تھے۔
عامر حنظلہ اسی تشدد کے بعد سے لاپتہ تھے۔ اہل خانہ نے بائیس دسمبر کو مقامی پولیس تھانے میں عامر کے لاپتہ ہونے کی ایف آئی آر درج کرائی تھی۔ اکتیس دسمبر کو عامر کی لاش ایک نالے سے بر آمد ہوئی۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلا کہ عامر کا قتل کیا گیا۔ اس کے جسم پر چوٹوں کے گہرے نشانات تھے اور بعض حصوں پر چاقو سے بھی حملہ کیا گيا تھا۔
![بہار میں مظاہرے کے دوران لاپتہ نوجوان عامر حنظلہ](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_abdul-bari.jpg)
پولیس کے مطابق اس واردات کے بیشتر ملزمین کا تعلق بجرنگ دل، آر ایس ایس، ہندو پتر اور ہندو سماج سنگٹھن جیسی سخت گیر ہندو تنظیموں سے ہے۔
یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بھارت کے تقریباً تمام حصے میں مظاہرے مسلسل جاری ہیں۔، حتی کہ دہلی کے سیلم پور، شاہیں باغ، اور مہاراشٹرا کے مخلتلف علاقوں میں خواتین کا مظاہرہ تا حال جاری ہے۔
حیدرآباد میں مظاہرہ کے خلاف ملین مارچ
چار جنوری سنہ 2020 کو جنوبی شہر حیدرآباد میں بھی 'شہریت ترمیمی قانون' 'این آر سی' اور 'این پی آر' کے خلاف ملین مارچ کا انعقاد ہو ا جس میں مختلف تنظیموں، یونیورسٹی کے طلبا یونین، وکلاء اور تاجر کے علاوہ مختلف شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔مظاہرے میں سروں کا سمندر نظر آیا۔
مارچ میں کثیر تعداد میں غیر مسلم مرد و خواتین نے بھی حصہ لیا اور 'این آر سی'، 'سی اے اے' اور 'این پی آر ' کے خلاف مسلمانوں کے شانہ بشانہ مظاہرے میں شریک رہے۔
![حیدرآباد کے ملین مارچ کے دوران کثیر تعداد نے خواتین نے بھی منظم انداز میں مظاہرہ کیا](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_hyd6.jpg)
برقعہ پوش خواتین اور ٹوپی داڑھی اور کرتا پاجامہ میں ملبوس ہزاروں حفاظ و علماء بھی اپنے ہاتھوں میں قومی پرچم تھامے مارچ میں شریک ہوئے۔ اس دوران مظاہرین نے کہا کہ "ہمارے اجداد نے اس ملک کے لیے اپنی جانیں قربان کی ہیں تاہم موقع آنے پر ہم بھی اس سے گریز نہیں کریں گے''۔
اس مارچ کی خاص بات یہ تھی کہ ہزاروں کی تعداد میں حیدرآباد اور مضافات سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ یہ مارچ مکمل طور پر امن رہا۔
![احتجاج کے دوران مظاہرین کے ہاتھوں میں ترنگہ](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_hyd2.jpg)
بھارت کی تاریخ میں اس سے قبل کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حکومت کی حمایت میں لوگوں نے سڑکوں پر احتجاجی ریلی نکالی ہو۔
مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتا بنرجی، کیرالہ کے وزیراعلی پنرائی وجین سمیت مختلف سیاسی و سماجی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکمراں جماعت جوابی ردعمل کےطورپر عوامی طاقت اورجمہوری حق کو دبانے کے لیے زبردستی سی اے اے اور این آر سی کی حمایت میں غریب اور ناسمجھ لوگوں کو کرایہ پر لا کر حکومت کی حمایت کروا رہی ہے اور اسےمذہبی رنگ دےکرملک میں فرقہ وارانہ ماحول پیداکرنےکی ناکام کوشش کر رہی ہے۔
مظاہروں اور ریلیوں میں چند اہم باتوں کا خیال رکھا جائے
کئی ریاستوں کی حکومت نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اپنے یہاں اسے نافذ نہیں کریں گی؛ اس لیے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی اپنی ریاستوں میں اثر و رسوخ استعمال کر کے حکومت کو اس پر آمادہ کریں اور جہاں ضرورت ہو امن وقانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اور غیر مسلم بھائیوں کو ساتھ لے کر احتجاج کریں۔
اس احتجاج میں قانون کے خلاف کوئی عمل نہ کریں جس میں قانون کی نظر میں مجرم ہوں، نہ سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچائیں کہ یہ اپنے آپ کو نقصان میں ڈالنا ہے۔ اور سب سے بڑی بات کہ اسے ہندو مسلم مسئلہ ہرگز نہ بننے دیں۔ جلوس وغرہ کے دوران مذہبی نعرے مثلاً نعر تکبیر وغیرہ سے گریز کیا جائے۔
اس وقت جو اجتماعات ہو رہے ہیں، اس میں کافی حد تک اس کا خیال رکھا گیا ہے لیکن آئندہ اور احتیاط کی ضرورت ہے ورنہ بعض شر پسند اور غیر سماجی عناصر احتجاج میں شریک ہو کر اس کے اصل مقصد کو تباہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔
سی اے اے کے بعد این آر سی کے لیے کون کون سے دستاویزات کی ضرورت ہوگی ان کے لیے حکومت سے بات کی جائے اور ضرورت ہو تو عدالت سے رجوع کیا جائے۔
![سی اے اے کی مخالفت میں خواتین پیش پیش رہیں](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/5635249_pro12.jpg)
ثبوت و شواہد کے سلسلہ میں یہ بات رکھی جائے کہ جتنے دستاویزات حکومت جاری کرتی ہے اور ان کا ویری فیکیشن کراتی ہے ان میں سے کسی بھی دستاویز کو کافی سمجھا جائے مثلاً پاسپورٹ وغیرہ۔
تیسرا ضروری کام یہ ہے کہ تمام سرکاری دستاویزات کو جلد سے جلد حاصل کیا جائے اور اگر ان میں اصلاح کی ضرورت ہو تو اسے فوری طور پر مکمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
یہ کام ہر فرد کو اپنے اپنے لحاظ سے بھی کرنا چاہئے او مسلم تنظیموں، جماعتوں اور اداروں کو بھی اس میں پیش پیش ہو کر حصہ لینا چاہئے اور لوگوں کا تعاون کرنا چاہئے۔
بقلم: فضل رحمٰن رحمانی، ای ٹی وی بھارت (حیدرآباد)