عالمی شہرت یافتہ تعلیمی ادارہ جامعہ ہمدرد میں 'ہندوستان میں مدارس کا تعلیمی نظام: مسائل و مواقع' کے موضوع پر دو روزہ پروگرام کا آغاز ہوا۔ Programs on the subject of madrasa education system in India
پہلے دن سمینار میں مسلم دانشوران نے مدارس اسلامیہ کے تعلیمی نظام میں تبدیلی لانے اور اور عصری علوم کو شامل کرنے پر زور دیا اور ایک الگ مدرسہ بورڈ قائم کرکے حکومت ہند سے منظور کرانے کا مطالبہ کیا۔ Changes in the education system of Islamic schools
شاہی مسجد فتح پوری کے امام ڈاکٹر مفتی مکرم احمد نے کہا کہ 'وقت تقاضہ ہے کہ مدارس اسلامیہ کی تعلیمی نظام میں تبدیلی لائی جائے اور نصاب میں دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کو شامل کیا جائے تاکہ مدارس کے طلبا کسی بھی میدان میں کمتر نہ رہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'مدارس کے بچے فارم اور درخواست نہیں لکھ پاتے ہیں اور دوسرے لوگوں کا سہارا لیتے ہیں اس لیے ہمیں چاہیے کہ مدارس اسلامیہ میں عصری تعلیم کا انتظام کیا جائے۔' Management of modern education in Islamic schools
مولانا آزاد نیشنل اوپن یونیورسٹی کے سابق پرو وائس چانسلر پروفیسر خواجہ محمد شاہد (ریٹارڈ آئی اے ایس) نے کہا کہ 'مدارس اسلامیہ میں نصاب پر کافی عرصہ سے باتیں ہورہی ہیں لیکن ابھی تک اس پر کوئی خاص کام نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'مدارس کے لیے قومی مدرسہ بورڈ ہونا بے حد ضروری ہے لیکن اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ یہ مدرسہ بورڈ مدرسوں کی اصلاح کے لیے ہونا چاہیے جس میں مدرسوں کا تعلیمی معیار طے کی جائے اور اس کے ذریعے اساتذہ کی ٹریننگ کا بھی انتظام ہو۔'
جامعہ ہمدرد کے وائس چانسلر پروفیسر افشار عالم نے کہا کہ 'مدارس کے نظام تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبا کو اوپن اسکول سے دسویں اور بارہویں کلاس کرانا چاہیے تاکہ وہ بچے اعلیٰ تعلیم کے لیے کسی سے پیچھے نہ رہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ، جامعہ ہمدرد اور دیگر یونیورسٹیز میں داخلہ آسانی سے لے سکے اور انجینئر ڈاکٹر بننے کاراستہ ہموار ہو۔'
شاہین انسٹی ٹیوٹ کے چیئرمین ڈاکٹر عبدالقادر نے کہا کہ 'مدارس کے طلبہ کو اگر شروع سے ہی انگریزی، حساب، جغرافیائی اور سائنس کی طرف مائل کردیا جائے تو وہ کسی بھی میدان میں آگے بڑھ سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'شاہین انسٹی ٹیوٹ میں حفاظ طلبہ کا خاص طور پر داخلہ لیا جاتا ہے اور انہیں محنت کرکے دسویں اور بارہویں کا تعلیم دلاکر انجینئر اور ڈاکٹر کے لیے تیار کیا جاتا ہے اگر مدارس میں دسویں اور بارہویں طلبا کو پاس کرایا جائے تو کم وقت میں دین اور دنیا کی تعلیم آسانی سے حاصل کرسکتے ہیں۔'
دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین کمال فاروقی نے کہا کہ 'وہ مدارس کے نظام تعلیم میں تبدیلی کے خلاف ہیں۔ ہاں اگر عصری تعلیم دی جائے تو اس میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔' Kamaal Farooqui on Madrasa Education system
جامعہ ہمدرد یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید فضل الرحمن نے مدارس کی نظام تعلیم کی تبدیلی کی وکالت کرتے ہوئے کہا کہ 'مدارس کا نظامیہ کا بورڈ ہونا چاہیے تاکہ تمام مدارس کی نگرانی کی جائے اور مدارس کے طلبا کو جدید تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔'
انہوں نے کہا کہ 'مدارس کے ذمہ داران کو چاہیے کہ حکومت کی جانب سے جو اوپن اسکول ہے خاص کرکے آئی این او ایس، اگنو،جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے دسویں اور بارہویں کا کورس کرائے تاکہ وہ اعلی تعلیم کے لیے یونیورسٹی کا رخ کرسکیں۔'
بنارس ہندو یونیورسٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر افضل مصباحی نے کہا کہ 'مدارس کے بچے کسی بھی میدان میں کم تر نہیں ہیں صرف ان کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'میں خود ایک مدرسہ کا طالب علم رہا ہوں اور اپنے کوششوں سے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی اور پی ایچ ڈی مکمل کی اور آج میں بنارس یونیورسٹی میں درس وتدریس کی ذمہ داری ادا کر رہا ہوں۔'
پروگرام میں جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی اور مولانا آزاد اوپن نیشنل یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اسلم پرویز وغیرہ نے بھی خطاب کیا اور مدارس کے نظام تعلیم پر گفتگو کی۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ان دانشوران کی رائے کا مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران پر کیا اثر پڑتا ہے۔