2004 میں بی جے پی کے خاتمہ کے بعد کانگریس سربراہ سونیا گاندھی نے غیرمتوقع طور پر منموہن سنگھ کو یو پی اے اتحاد کی زیرقیادت حکومت میں وزیراعظم نامزد کیا تھا، یہ فیصلہ سب کو چونکادینے والا تھا اور خاص طور پر پرنب مکھرجی کےلیے۔
منموہن سنگھ نے پرنب مکھرجی کی آخری کتاب ’اتحاد سال 12-1998‘ کی رسم اجرائی کے موقع پر کہا تھا کہ ’مجھے وزیراعظم بنایا جانا پرنب مکھرجی کے لیے پریشان کن تھا‘۔ سونیا گاندھی نے مجھے وزیراعظم کےلیے منتخب کیا تھا جبکہ مکھرجی پارٹی میں سینئر تھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیونکہ پرنب مکھرجی ایک سیاستداں ہیں اسی لیے یہ ایک فطری عمل تھا اور میں اتفاقی طور پر سیاست داں بن گیا۔
منموہن سنگھ نے کہا کہ پرنب مکھرجی وزیراعظم بننے کےلیے زیادہ اہل تھے، انہیں میرے وزیراعظم بننے سے پریشان کن صورتحال سے گذرنا پڑا جبکہ وہ میرے ایک اچھے دوست ہیں اور ہمارا ساتھ زندگی بھر جاری رہے گا۔
سابق صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی نے ایک انٹریو کے دوران کہا تھا کہ ’ان کی ہندی پر کمزور گرفت اور طویل عرصہ تک راجیہ سبھا کا رکن رہنے کی وجہ سے انہیں ملک کا وزیراعظم بننے کےلیے نااہل قرار دیا گیا تھا‘۔
وہ وزیراعظم کیوں نہیں بنے:
1984 اکتوبر کے اواخر میں جب راجیو گاندھی، پرنب مکھرجی کے ساتھ مغربی بنگال کے دورہ پر تھے اس وقت اندرا گاندھی کے قتل کی اطلاع موصول ہوئی تھی۔ مکھرجی نے اپنی کتاب ’ہنگامہ خیز سال 1996-1980‘ میں لکھا ہے کہ اندرا گاندھی کے قتل کی اطلاع ملی تو میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور بے ساختہ رو پڑے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اندرا گاندھی کی رہنمائی میں پرنب مکھرجی نے اپنے سیاسی کیریئر کو تقویت بخشی اور کئی بلندیوں کو سر کیا۔
1978 میں پرنب مکھرجی ان چند لوگوں میں شامل تھے جو اندرا گاندھی کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے تھے۔ پرنب اپنی کتاب میں اپنے والد کے مشورہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس وقت والد نے مشورہ دیا تھا کہ میں اندرا گاندھی کے ساتھ کھڑا رہوں۔
ایمرجنسی کے اعلان پر تنقید کی جارہی تھی لیکن پرنب نے حمایت کی جبکہ ایمرجنسی کے بعد بھی پرنبدا اپنی حمایت کو جاری رکھا تھا۔
1984 میں اندرا گاندھی کی اچانک موت کے بعد پرنب مکھرجی کو ان کا نعم البدل تصور کیا جارہا تھا جس طرح 1964 میں نہرو کی اور 1966 میں شاستری کی موت کے بعد پارلیمانی رسم و رواج کے مطابق صدر کی جانب سے پارلیمنٹ کے رینکنگ ممبر کو وزیراعظم کے منصب پر براجمان کیا گیا تھا، توقع کی جارہی تھی کہ گیانی ذیل سنگھ اس روایت کو نظر میں رکھتے ہوئے مکھرجی کو جو اس وقت وزیر خزانہ تھے کو وزیراعظم کے عہدہ پر فائز کرتے تاہم ایسا نہیں ہوا۔
اس پس منظر میں پرنب مکھرجی نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ’پہلے کے واقعات میں وزیراعظم کی موت فطری تھی لیکن اندرا گاندھی کو قتل کیا گیا تھا اور اس واقعہ کے بعد ایک غیریقینی کیفیت پیدا ہوگئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ اندرا گاندھی کی موت کے بعد جب وہ مغربی بنگال سے دہلی آرہے تھے تو انہوں نے اپنے دیگر کانگریس ارکان کے ساتھ ملکر اس بات کا فیصلہ کیا تھا کہ اندرا گاندھی کے بیٹے راجیو گاندھی کو وزیراعظم کے عہدہ پر فائز کیا جائے لیکن اس طرح کا فیصلہ ان کے دہلی پہنچنے سے قبل ہی لے لیا گیا تھا۔
دسمبر 1984 میں منعقد ہوئے پارلیمانی انتخابات میں کانگریس نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے 414 نشستیں حاصل کی تھی اور راجیو گاندھی نے اپنی نئی کابینہ میں پرنب مکھرجی کو جگہ نہیں دی تھی۔ پرنب مکھرجی نے کہا کہ کابینہ سے ہٹائے جانے کے بعد میں حیرت زدہ تھا اور میرے لیے یقین کرنا مشکل تھا۔
1986 میں پرنب مکھرجی نے مغربی بنگال میں راشٹریہ سماج وادی کانگریس کی بنیاد رکھی لیکن تین سال بعد راجیو گاندھی سے سمجھوتہ کرنے کے بعد پارٹی کو کانگریس میں ضم کردیا۔
1991 میں ایک اور قتل سے ملک دہل گیا جبکہ اس بار راجیو گاندھی کا قتل کیا گیا تھا۔ راجیو گاندھی کے بعد نرسمہا راؤ کو وزیراعظم بنایا گیا اور انہوں نے پرنب مکھرجی کو منصوبہ بندی کمیشن کا نائب صدرنشین مقرر کیا اور بعد انہیں 1995 میں وزیر خزانہ مقرر کیا گیا۔
سونیا گاندھی سے قبل پرنب مکھرجی کانگریس میں پارٹی صدر کے عہدہ کے مضبوط معمار تھے۔ سمجھا جاتا ہے کہ سونیا گاندھی کو سیاست میں لانے میں پرنب مکھرجی نے اہم رول ادا کیا تھا۔
2004 انتخابات کے بعد جب کانگریس نے اقتدار پر واپسی کی تو اس وقت سونیا گاندھی، وزیراعظم کے عہدہ کےلیے اکیلی دعویدار تھیں لیکن ان کے غیرملکی نسل ہونے کی وجہ سے شدید تنقیدوں کے درمیان سونیا گاندھی نے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے سے انکار کردیا تھا اور اس وقت پرنب مکھرجی اہم دعویدار تھے لیکن توقعات کے برخلاف منموہن سنگھ کو وزیراعظم بنایا گیا۔