ETV Bharat / state

عدلیہ پر سیاسی دھبہ

جسٹس گوگوئی اْن لوگوں میں سے ایک شخص ہیں جنہوں نے 2018میں اپنی تکلیف کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب تک عدالتِ عظمیٰ ملک کے اعلیٰ ترین ادارے کی حیثیت سے اپنی شناخت برقرار نہیں رکھتی ہے تب تک ملک میں جمہوریت کی کوئی بقاء نہیں ہے۔ لیکن جسٹس گوگوئی کی راجیہ سبھا کے لئے حالیہ نامزدگی کو دانشور حضرات تنقیدی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

author img

By

Published : Mar 21, 2020, 6:14 PM IST

عدلیہ پر سیاسی دھبہ
عدلیہ پر سیاسی دھبہ

اس نامزدگی کے ردِ عمل میں عدالتِ عظمیٰ کے ریٹائرڈ جج جسٹس مدن بی لوکر کہ کیا ملک کا آخری قلعہ بھی ڈھہ چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی فوری نامزدگی نے اْنہیں اْ لجھا کر رکھ دیا ہے اور اس اقدام سے عدلیہ کی آزادی، سالمیت اور غیر جانبداری اثر اندازہو گی۔

آیئن کی دفعہ 80کے مطابق صدر ہند اپنی طرف سے مْختلف شعبوں کے 12افراد کو رنامزد کر سکتے ہیں۔

تنقید اس بات پر ہو رہی ہے کہ مودی حکومت نے بھی جسٹس رنجن گوگوئے کو راجیہ سبھا کے لئے نامزد کر کے عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔اگرچہ جسٹس گوگوئے نے جواب میں کہا ہے کہ کبھی کبھی قانون ساز اداروں اور عدلیہ کو ملک کی تعمیر کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا لیکن دوسرے ریٹائرڈ جج جسٹس کورین جوزف نے اس کے ردِ عمل میں کہا کہ گوگوئے نے عدلیہ کی غیر جانبداری اور آزادی کے اصولوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔

جسٹس گوگوئے کی نامزدگی کے خلاف عدالت میں ایک مفاد عامہ کے تحت ایک عرضی بھی داخل کی گئی ہے۔یہ معلوم نہیں کی یہ قانونی تنازعہ کب اختتام کو پہنچے گا تاہم آزاد عدلیہ کے حامی فی الوقت پریشانی کے عالم میں مبتلا ہیں ۔

عدالت نے 1973میں کیسوآنند بھارتی معاملے نے کہا تھا کہ "آزاد عدلیہ جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ ہے"۔لہٰذا کولیجیم (collegium)کے بنیادی ڈھانچے میں عدالتِ عْظمیٰ کی مستحکم حیثیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔1973میں جسٹس اے این رائے اور 1977میں میں جسٹس ایم ایچ بیگ کی بطور چیف جسٹس کے تقرری سے کانگریس کی ناروا سیاست نے پہلے ہی عدالتی نظام کو دھچکہ پہنچایا ہے۔

بی جے پی شروع سے ہی عدالتی نظام میں وفاداری کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ارون جیٹلے نے 2012میں احتجاج کیا تھا کہ اگرچہ ریٹائرمنٹ کے لئے عمر کی حد مقرر ہے لیکن حکومت کا رویہ عدالتی امور میں غیر جانبداری کو متاثر کر رہا ہے اور اس طرز عمل کا مقابلہ کرنے کے لئے وقت مناسب ہے۔

جسٹس پی سدا شوم جواپریل 2014میں فارغ التحصیل ہوئے تھے وکو اسی سال ستمبر کے مہینے میں کیرالہ کا گورنر تعینات کی گیا۔جسٹس آدرش گوئل جو لائی 2018کو ریٹائر ہو ئے کو اسی دن نیشنل گرین ٹریبیونل کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔

یہ بات سچ ہے جسٹس ہدایت اللہ 1979میں بھارت کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، لیکن یہ تب ہوا جب انہیں ریٹائر ہوئے 9سال کا عرسہ گذر چکا تھا۔پہلی خاتون جج کو آندھرا پریدیش اور تامل ناڈو کا گورنر تعینات کیا گیا لیکن یہ تعیناتی اْن کی ریٹائرمنٹ کے پانچ سال بعد ہوئی۔

جسٹس رنگانند مشرا جو 1991میںچیف جسٹس کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے 1998میں کانگریس کی حمایت سے راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔بی جے پی کا کہنا ہے جسٹش مشرا کو سکھوں کے قتل عام کے کیس میںاْن کے سازگار موقف کی وجہ سے راجیہ سبھا کی رکنیت سے نوازا گیا۔اب گوگوئی کو راجیہ سبھا کے لئے نامزد کرنے سے بی جی پی کو اسی تنقید کا سامنا ہے۔

یہ سب امور عدالتی نظام کے وقار کو برقرار رکھنے کے لئے مخصوص اصلاحات کی ضرورت کو اْجاگر کر رہے ہیں۔جسٹس سدا شوم کو کیرالہ کاگورنر تعینات کئے جانے کے خلاف بھی عوامی مفاد کی ایک عرضی عدالت میںدائر کی گئی تھی جس میں عدلیہ کے نظام کو بچانے کی درخواست کی گئی تھی۔

اکتوبر 2014میں عدالت نے اس درخواست کو خارج کرتے ہوئے جسٹس ایچ این دتو اور جسٹس ایس اے بوبڈے جو موجودہ چیف جسٹس ہیں نے کہا تھا کہ وہ ریٹائرڈ ججوں کے کوئی عہد ہ قبول کرنے یا کام لینے پر روک نہیں لگا سکتے ہیں۔

لا کمیشن نے 1958میںریٹائرڈ ججوں کو دئے جانے والے اسائنمنٹس کے بارے میں وضع کردہ رہنما اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی 14ویں رپورٹ میں کہا تھا کہ ججوں کی آزادی پر حملہ کرنے کے رجحان کو بند کیا جائے ۔ چونکہ اس طرح کی سفارشات کو نظر انداز کیا گیا لہٰذا عدلیہ پر سیاسی بد دیانتی کی وجہ سے مرتب ہونے والے منفی اثرات کے حوالے سے خدشات بھی ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔

جسٹس ار ایم لودھا جو 2014میں ریٹائر ہوئے نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ کسی بھی جج کو ریٹائر ہونے کے بعدکم از کم دو سال تک کوئی بھی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے۔ایک طرف جہاں عدالتِ عظمیٰ نے صاف کیا ہے کہ اس طرح کی پابندی کو نافذ نہیں کیا جا سکتا ہے وہیں دوسری طرف حکومت نے بھی راجیہ سبھا کوگذشتہ فروری میں یہی کچھ بتایا۔

لا کمیشن نے اس بات کو واضح طورپر یہ صاف کیاہے کہ جن معاملات کے ساتھ حکومت کے مفادات وابستہ ہوں(پچاس فیصد معاملات میں )ان معاملات میں ججوں میں یہ امید اجاگر ہو سکتی ہے کہ اگر وہ حکومت کا ساتھ دیں گے تو ریٹائر منٹ کے بعد انہیں مراعات اور انعام سے نوازا جا سکتا ہے۔اس سے نظام ِ عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کی راہ میں رکاوٹ آئے گی۔

لہٰذا اگر ججوںکی ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ تعیناتی یا کوئی عہدہ قبول کرنے پر چھہ سال تک کی قانونی پابندی لگائی جائے تو عدلیہ پر حکومت کی طرفداری کاکوئی بھی دھبہ بھی نہیں لگے گااور ساتھ ہی عدلیہ کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔

اس نامزدگی کے ردِ عمل میں عدالتِ عظمیٰ کے ریٹائرڈ جج جسٹس مدن بی لوکر کہ کیا ملک کا آخری قلعہ بھی ڈھہ چکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس طرح کی فوری نامزدگی نے اْنہیں اْ لجھا کر رکھ دیا ہے اور اس اقدام سے عدلیہ کی آزادی، سالمیت اور غیر جانبداری اثر اندازہو گی۔

آیئن کی دفعہ 80کے مطابق صدر ہند اپنی طرف سے مْختلف شعبوں کے 12افراد کو رنامزد کر سکتے ہیں۔

تنقید اس بات پر ہو رہی ہے کہ مودی حکومت نے بھی جسٹس رنجن گوگوئے کو راجیہ سبھا کے لئے نامزد کر کے عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ کر لیا ہے۔اگرچہ جسٹس گوگوئے نے جواب میں کہا ہے کہ کبھی کبھی قانون ساز اداروں اور عدلیہ کو ملک کی تعمیر کے لئے مل کر کام کرنا ہوگا لیکن دوسرے ریٹائرڈ جج جسٹس کورین جوزف نے اس کے ردِ عمل میں کہا کہ گوگوئے نے عدلیہ کی غیر جانبداری اور آزادی کے اصولوں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔

جسٹس گوگوئے کی نامزدگی کے خلاف عدالت میں ایک مفاد عامہ کے تحت ایک عرضی بھی داخل کی گئی ہے۔یہ معلوم نہیں کی یہ قانونی تنازعہ کب اختتام کو پہنچے گا تاہم آزاد عدلیہ کے حامی فی الوقت پریشانی کے عالم میں مبتلا ہیں ۔

عدالت نے 1973میں کیسوآنند بھارتی معاملے نے کہا تھا کہ "آزاد عدلیہ جمہوریت کا بنیادی ڈھانچہ ہے"۔لہٰذا کولیجیم (collegium)کے بنیادی ڈھانچے میں عدالتِ عْظمیٰ کی مستحکم حیثیت پر کوئی سمجھوتہ نہیں۔1973میں جسٹس اے این رائے اور 1977میں میں جسٹس ایم ایچ بیگ کی بطور چیف جسٹس کے تقرری سے کانگریس کی ناروا سیاست نے پہلے ہی عدالتی نظام کو دھچکہ پہنچایا ہے۔

بی جے پی شروع سے ہی عدالتی نظام میں وفاداری کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ارون جیٹلے نے 2012میں احتجاج کیا تھا کہ اگرچہ ریٹائرمنٹ کے لئے عمر کی حد مقرر ہے لیکن حکومت کا رویہ عدالتی امور میں غیر جانبداری کو متاثر کر رہا ہے اور اس طرز عمل کا مقابلہ کرنے کے لئے وقت مناسب ہے۔

جسٹس پی سدا شوم جواپریل 2014میں فارغ التحصیل ہوئے تھے وکو اسی سال ستمبر کے مہینے میں کیرالہ کا گورنر تعینات کی گیا۔جسٹس آدرش گوئل جو لائی 2018کو ریٹائر ہو ئے کو اسی دن نیشنل گرین ٹریبیونل کا چیئرمین تعینات کیا گیا۔

یہ بات سچ ہے جسٹس ہدایت اللہ 1979میں بھارت کے نائب صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، لیکن یہ تب ہوا جب انہیں ریٹائر ہوئے 9سال کا عرسہ گذر چکا تھا۔پہلی خاتون جج کو آندھرا پریدیش اور تامل ناڈو کا گورنر تعینات کیا گیا لیکن یہ تعیناتی اْن کی ریٹائرمنٹ کے پانچ سال بعد ہوئی۔

جسٹس رنگانند مشرا جو 1991میںچیف جسٹس کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے 1998میں کانگریس کی حمایت سے راجیہ سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔بی جے پی کا کہنا ہے جسٹش مشرا کو سکھوں کے قتل عام کے کیس میںاْن کے سازگار موقف کی وجہ سے راجیہ سبھا کی رکنیت سے نوازا گیا۔اب گوگوئی کو راجیہ سبھا کے لئے نامزد کرنے سے بی جی پی کو اسی تنقید کا سامنا ہے۔

یہ سب امور عدالتی نظام کے وقار کو برقرار رکھنے کے لئے مخصوص اصلاحات کی ضرورت کو اْجاگر کر رہے ہیں۔جسٹس سدا شوم کو کیرالہ کاگورنر تعینات کئے جانے کے خلاف بھی عوامی مفاد کی ایک عرضی عدالت میںدائر کی گئی تھی جس میں عدلیہ کے نظام کو بچانے کی درخواست کی گئی تھی۔

اکتوبر 2014میں عدالت نے اس درخواست کو خارج کرتے ہوئے جسٹس ایچ این دتو اور جسٹس ایس اے بوبڈے جو موجودہ چیف جسٹس ہیں نے کہا تھا کہ وہ ریٹائرڈ ججوں کے کوئی عہد ہ قبول کرنے یا کام لینے پر روک نہیں لگا سکتے ہیں۔

لا کمیشن نے 1958میںریٹائرڈ ججوں کو دئے جانے والے اسائنمنٹس کے بارے میں وضع کردہ رہنما اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی 14ویں رپورٹ میں کہا تھا کہ ججوں کی آزادی پر حملہ کرنے کے رجحان کو بند کیا جائے ۔ چونکہ اس طرح کی سفارشات کو نظر انداز کیا گیا لہٰذا عدلیہ پر سیاسی بد دیانتی کی وجہ سے مرتب ہونے والے منفی اثرات کے حوالے سے خدشات بھی ابھر کر سامنے آرہے ہیں۔

جسٹس ار ایم لودھا جو 2014میں ریٹائر ہوئے نے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ کسی بھی جج کو ریٹائر ہونے کے بعدکم از کم دو سال تک کوئی بھی عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے۔ایک طرف جہاں عدالتِ عظمیٰ نے صاف کیا ہے کہ اس طرح کی پابندی کو نافذ نہیں کیا جا سکتا ہے وہیں دوسری طرف حکومت نے بھی راجیہ سبھا کوگذشتہ فروری میں یہی کچھ بتایا۔

لا کمیشن نے اس بات کو واضح طورپر یہ صاف کیاہے کہ جن معاملات کے ساتھ حکومت کے مفادات وابستہ ہوں(پچاس فیصد معاملات میں )ان معاملات میں ججوں میں یہ امید اجاگر ہو سکتی ہے کہ اگر وہ حکومت کا ساتھ دیں گے تو ریٹائر منٹ کے بعد انہیں مراعات اور انعام سے نوازا جا سکتا ہے۔اس سے نظام ِ عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری کی راہ میں رکاوٹ آئے گی۔

لہٰذا اگر ججوںکی ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ تعیناتی یا کوئی عہدہ قبول کرنے پر چھہ سال تک کی قانونی پابندی لگائی جائے تو عدلیہ پر حکومت کی طرفداری کاکوئی بھی دھبہ بھی نہیں لگے گااور ساتھ ہی عدلیہ کے وقار میں بھی اضافہ ہوگا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.