ETV Bharat / state

Boycott of Muslims in Gurugram گروگرام میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل - وح میں فرقہ وارانہ تشدد

لنچ کے وقفے پر جانے سے قبل سینیئر وکیل کپل سبل نے اس عرضی کا تذکرہ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے کیا جو آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کر رہے ہیں۔

Plea in Supreme Court against call for boycott of Muslims in Gurugram
گروگرام میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل
author img

By

Published : Aug 8, 2023, 3:40 PM IST

نئی دہلی: ریاست ہریانہ کے نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کے سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کی کال دینے والے گروپوں کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔ لنچ کے وقفے پر جانے سے قبل سینئر وکیل کپل سبل نے اس عرضی کا تذکرہ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے کیا، جو بنچ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔

کپل سبل نے بنچ کے سامنے کہا کہ ایک عرضی داخل کی گئی ہے جس کی فوری سماعت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گروگرام میں کچھ سنگین معاملہ سامنے ہے، جہاں ایک گروپ کی طرف سے کال دی گئی ہے کہ "اگر آپ ان لوگوں ( مسلمانوں) کو اپنی دکانوں پر بطور ملازم رکھیں گے تو آپ سب غدار ہوں گے"، سبل نے کہا کہ اسی معاملے کے سلسلے میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے اور عدالت اس کی جانچ کر سکتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ درخواست نفرت انگیز تقریر سے منسلک ایک زیر التوا معاملے میں دائر کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ 4 اگست کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ نفرت انگیز تقریر کے متعلق اگرچہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے موجود ہیں، لیکن اصل مسئلہ اس پر عمل درآمد کا ہے اور اجتماعی کوششوں سے اس کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس ہریانہ میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد دہلی-این سی آر میں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی طرف سے منعقد کی جانے والی ریلیوں کے خلاف ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

اس وقت جسٹس سنجیو کھنہ اور ایس وی این بھٹی پر مشتمل بنچ نے فریقین سے استفسار کیا کہ کیا وہ ریلیاں پرامن تھیں۔ جس پر عرضی گزار شاہین عبداللہ کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے کہا کہ تشدد کی کوئی اطلاع نہیں ہے، تاہم ریلیوں میں کچھ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں۔ بنچ نے سنگھ سے کہا کہ نفرت انگیز تقریر کی تعریف کافی پیچیدہ ہے لیکن اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ آزادانہ تقریر کے دائرے میں نہ آئے۔ بنچ نے فریقین سے کہا کہ وہ ایک ساتھ بیٹھ کر حل تلاش کریں اور اجتماعی کوششوں کے ذریعے نفرت انگیز تقریر کا حل تلاش کرنے کے امکانات تلاش کریں۔

گزشتہ سال اکتوبر میں عدالت عظمیٰ نے اتر پردیش، دہلی اور اتراکھنڈ کو ہدایت دی تھی کہ وہ ملک میں نفرت انگیز تقاریر پر مذہب کو دیکھے بغیر مجرموں کے خلاف سوموٹو لیتے ہوئے کارروائی کریں۔

نئی دہلی: ریاست ہریانہ کے نوح میں فرقہ وارانہ تشدد کے بعد مسلمانوں کے سماجی اور اقتصادی بائیکاٹ کی کال دینے والے گروپوں کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کی گئی ہے۔ لنچ کے وقفے پر جانے سے قبل سینئر وکیل کپل سبل نے اس عرضی کا تذکرہ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے سامنے کیا، جو بنچ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔

کپل سبل نے بنچ کے سامنے کہا کہ ایک عرضی داخل کی گئی ہے جس کی فوری سماعت کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گروگرام میں کچھ سنگین معاملہ سامنے ہے، جہاں ایک گروپ کی طرف سے کال دی گئی ہے کہ "اگر آپ ان لوگوں ( مسلمانوں) کو اپنی دکانوں پر بطور ملازم رکھیں گے تو آپ سب غدار ہوں گے"، سبل نے کہا کہ اسی معاملے کے سلسلے میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے اور عدالت اس کی جانچ کر سکتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ یہ درخواست نفرت انگیز تقریر سے منسلک ایک زیر التوا معاملے میں دائر کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ 4 اگست کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ نفرت انگیز تقریر کے متعلق اگرچہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے موجود ہیں، لیکن اصل مسئلہ اس پر عمل درآمد کا ہے اور اجتماعی کوششوں سے اس کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔سپریم کورٹ نے یہ ریمارکس ہریانہ میں فرقہ وارانہ تصادم کے بعد دہلی-این سی آر میں وشو ہندو پریشد اور بجرنگ دل کی طرف سے منعقد کی جانے والی ریلیوں کے خلاف ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:

اس وقت جسٹس سنجیو کھنہ اور ایس وی این بھٹی پر مشتمل بنچ نے فریقین سے استفسار کیا کہ کیا وہ ریلیاں پرامن تھیں۔ جس پر عرضی گزار شاہین عبداللہ کی نمائندگی کرنے والے سینئر ایڈوکیٹ سی یو سنگھ نے کہا کہ تشدد کی کوئی اطلاع نہیں ہے، تاہم ریلیوں میں کچھ نفرت انگیز تقاریر کی گئیں۔ بنچ نے سنگھ سے کہا کہ نفرت انگیز تقریر کی تعریف کافی پیچیدہ ہے لیکن اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ یہ آزادانہ تقریر کے دائرے میں نہ آئے۔ بنچ نے فریقین سے کہا کہ وہ ایک ساتھ بیٹھ کر حل تلاش کریں اور اجتماعی کوششوں کے ذریعے نفرت انگیز تقریر کا حل تلاش کرنے کے امکانات تلاش کریں۔

گزشتہ سال اکتوبر میں عدالت عظمیٰ نے اتر پردیش، دہلی اور اتراکھنڈ کو ہدایت دی تھی کہ وہ ملک میں نفرت انگیز تقاریر پر مذہب کو دیکھے بغیر مجرموں کے خلاف سوموٹو لیتے ہوئے کارروائی کریں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.