ETV Bharat / state

'کمیشن کے غیر جانبدارانہ کردار کو قانونی تحفظ فراہم کیا جانا ضروری'

اقلیتی تعلیمی اداروں سے متعلق قومی کمیشن میں صحیح نمائندگی کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن داخل ہوئی ہے۔ کمیشن کے ممبران کی تقرری میں جانبداری کا الزام بھی ہے، سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

Petition of Jamiat Ulema-i-Hind for right representation in the National Commission
قومی کمیشن میں صحیح نمائندگی کے لیے جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن داخل
author img

By

Published : Jan 7, 2021, 7:29 PM IST

قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارے کے تحفظ اور اس میں اقلیتوں کی صحیح نمائندگی کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں آئین ہند کے آرٹیکل 32 کے تحت جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کے توسط سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ وجیہہ شفیق کے ذریعہ سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی تھی۔ جس پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی (جسٹس ناگیشور راؤ، جسٹس نوین سنہا اور جسٹس اندو ملہوترا) بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئی اور معزز عدالت نے پٹیشن کو سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے اس پر جواب طلب کیا ہے۔

واضح رہے کہ سال 2004 میں نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن ایکٹ بنا یا گیا تھا جس کی دفعہ 3 کے تحت نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس کمیشن میں ایک چیئر پرسن اور تین ممبر ہوتے ہیں، کمیشن کا چیئر پرسن ریٹائرڈ جسٹس ہائی کورٹ ہوتا ہے جبکہ ممبران کے لئے اعلی تعلیم یافتہ اور اپنے سماج میں بااثر و معزز ہونا ضروری ہے۔

کمیشن کو سول کورٹ کے اختیارات دیے گئے ہیں، کمیشن کی جانب سے کیے گئے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی جاسکتی ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے داخل پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کا قیام اقلیتی تعلیمی اداروں کے تحفظ کے لئے پارلیمنٹ میں قانون بنا کر کیا گیا تھا۔ یہ کوئی حکومتی ادارہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوستانی عدالتی نظام کا ایک حصہ ہے۔

کمیشن کے ممبران اور چیئرمین کی تقرری پہلے بھی حکومت کے ذریعہ ہوتی تھی، لیکن اب اس میں شفافیت نہیں برتی جارہی ہے بلکہ ایک طرح سے امتیازی رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر جمعیۃ علماء ہند نے اپنی پٹیشن میں مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن کے سربراہ اور ممبران کی تقرری کے لئے سپریم کورٹ اپنی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دے تاکہ کمیشن میں شفافیت کو برقرار رکھا جاسکے۔

پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ پٹیشن داخل کرنے کا مقصد یہ ہیکہ کمیشن کے دو ممبران کی میعاد دسمبر 2020 کے پہلے ہفتہ میں ختم ہوگئی ہے جن کی میعاد میں مزید پانچ سال کی توسیع یا انہیں دوبارہ منتخب کیے جانے کی حکومت ہند کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے۔

جن دو ممبران کو دوبارہ منتخب کیے جانے کی کوشش کی جارہی ان میں ڈاکٹر بلجیت سنگھ مان اور ڈاکٹر ناہید عابدی ہیں جبکہ تیسرے ممبر ڈاکٹر جسپال سنگھ کی میعاد 2023 میں ختم ہوگی۔

کمیشن کے موجودہ چیئرمین جسٹس نریندر کمار جین کی میعادبھی 2023 میں ختم ہوگی۔ پٹیشن میں مزید کہا گیا ہیکہ چیئر پرسن اور ممبران کا انتخاب من مانے طریقے سے کیا گیا، کمیشن کے قانون کے مطابق ان کا انتخاب عمل میں نہیں آیا تھا۔

تین ممبران میں سے دو سکھ ہیں اور دیگر اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں اس لئے کمیشن میں ان کی نمائندگی سب سے زیادہ ہونی چاہئے۔

پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیشن کے قانون کے مطابق کمیشن کے ممبران کو قانون کی معلومات ہونا ضروری ہے جبکہ موجودہ تینوں ممبران میں سے کسی بھی ممبر کا تعلق قانون کے شعبہ سے نہیں ہے جبکہ حکومت نے انہیں دوسرے قابل لوگوں پر ترجیح دیتے ہوئے اپنی مرضی سے منتخب کرلیا ہے جس کے خلاف پٹیشن داخل کی جارہی ہے تاکہ اگلی میعاد کے لیے ممبران کا تقرر ان کی قابلیت اور کمیشن کی ضرورت کے مطابق ہو تاکہ کمیشن کے ذریعہ اقلیتوں کو زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوسکیں۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشدمدنی نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ حالیہ کچھ برسوں کے دوران متعدد خود مختار حکومتی اداروں کو بے وقعت اور ناکارہ بنانے کی کوششیں ہوئی ہیں ان میں قلیتی تعلیمی اداروں سے متعلق قومی کمیشن بھی شامل ہے، جس کی تشکیل 2004 میں باقاعدہ طورپر ایک ایکٹ کے ذریعہ ہوئی تھی اس طرح کے ایک خود مختارقومی کمیشن کے قیام کا مقصد اقلیتی تعلیمی اداروں کو چلانے میں آنے والی قانونی رکاوٹوں اور دوسری طرح کی دشواریوں کو دور کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اپنے قیام کے ابتدائی کئی سالوں کے دوران اس کمیشن کی کارکردگی بہت شاندار رہی، کئی اہم اقلیتی تعلیمی اداروں کے تعلق سے کمیشن نے غیر معمولی نوعیت کے فیصلے بھی کئے جن میں جامعہ کے اقلیتی کردار کی بحالی کا اہم فیصلہ بھی تھا مگر اب یہ کمیشن بھی دوسرے حکومتی اداروں کی طرح نہ صرف ایک دکھاوے کا ادارہ بن کر رہ گیا ہے بلکہ اس کے ممبران کے تقرری میں بھی بڑی حدتک جانبداری برتی جارہی ہے اور اصول وضوابط کا بھی لحاظ نہیں رکھا جارہا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کمیشن اقلیتی تعلیمی اداروں سے متعلق ہے اور چونکہ مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہے اور دوسری اقلیتوں کی آبادی کا تناسب مسلم آبادی کے مقابلہ بہت کم ہے اس لئے اصولی طورپر اس کمیشن کے قیام کے بعد سے کسی ریٹائرڈمسلم جج کو ہی کمیشن کا سربراہ بنایا جاتا رہا لیکن مرکز میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد انتخاب کا یہ اصولی پیمانہ یکسر تبدیل کردیا گیا اور یہ کہ ممبران کی تقرری میں بھی جانبداری سے کام لیاجانے لگا۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن کے سربراہ اور ممبران کا انتخاب پہلے بھی مرکزی حکومت کے ذریعہ ہوتا تھا مگر اب واقعہ یہ ہے کہ حکومت اپنی پسند کے لوگوں کی تقرری یا ان کی مدت کار میں توسیع کر رہی ہے ایسے میں یہ امید کس طرح کی جاسکتی ہے کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کے تعلق سے کسی معاملہ میں کارروائی کرتے اور فیصلہ سناتے وقت کمیشن غیرجانبداری کا مظاہرہ کرے گا۔

جمعیۃ علماء ہند نے اپنی پٹیشن میں یہ بھی کہا ہے کہ کمیشن کے ممبران کے انتخاب کے لئے سپریم کورٹ اپنی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دے تاکہ ممبروں کے انتخاب میں کسی طرح کی جانبداری کا امکان نہ پیدا ہو۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ چونکہ مسلمان آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہے اس لئے کمیشن میں مسلم ممبران کی تعداد ایک سے زیادہ ہونی چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے اور کمیشن کے غیر جانبدارانہ کردارکو تحفظ فراہم کرانے کے لئے جمعیۃعلماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن سپریم کورٹ نے سماعت کے لئے منظورکرلی ہے اور اس پر مرکزی حکومت سے جواب بھی طلب کیا ہے امید کی جانی چاہئے کہ معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر عدالت جلد ہی اس پر کوئی مناسب فیصلہ بھی صادرکرے گی.

قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارے کے تحفظ اور اس میں اقلیتوں کی صحیح نمائندگی کے لیے جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں آئین ہند کے آرٹیکل 32 کے تحت جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امدادکمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی کے توسط سے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ وجیہہ شفیق کے ذریعہ سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کی تھی۔ جس پر آج سپریم کورٹ آف انڈیا کی تین رکنی (جسٹس ناگیشور راؤ، جسٹس نوین سنہا اور جسٹس اندو ملہوترا) بینچ کے روبرو سماعت عمل میں آئی اور معزز عدالت نے پٹیشن کو سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے مرکزی حکومت سے اس پر جواب طلب کیا ہے۔

واضح رہے کہ سال 2004 میں نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن ایکٹ بنا یا گیا تھا جس کی دفعہ 3 کے تحت نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشن کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس کمیشن میں ایک چیئر پرسن اور تین ممبر ہوتے ہیں، کمیشن کا چیئر پرسن ریٹائرڈ جسٹس ہائی کورٹ ہوتا ہے جبکہ ممبران کے لئے اعلی تعلیم یافتہ اور اپنے سماج میں بااثر و معزز ہونا ضروری ہے۔

کمیشن کو سول کورٹ کے اختیارات دیے گئے ہیں، کمیشن کی جانب سے کیے گئے فیصلوں کے خلاف ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی جاسکتی ہے۔

جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے داخل پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ کمیشن کا قیام اقلیتی تعلیمی اداروں کے تحفظ کے لئے پارلیمنٹ میں قانون بنا کر کیا گیا تھا۔ یہ کوئی حکومتی ادارہ نہیں ہے، بلکہ یہ ہندوستانی عدالتی نظام کا ایک حصہ ہے۔

کمیشن کے ممبران اور چیئرمین کی تقرری پہلے بھی حکومت کے ذریعہ ہوتی تھی، لیکن اب اس میں شفافیت نہیں برتی جارہی ہے بلکہ ایک طرح سے امتیازی رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اس کے پیش نظر جمعیۃ علماء ہند نے اپنی پٹیشن میں مطالبہ کیا ہے کہ کمیشن کے سربراہ اور ممبران کی تقرری کے لئے سپریم کورٹ اپنی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دے تاکہ کمیشن میں شفافیت کو برقرار رکھا جاسکے۔

پٹیشن میں مزید کہا گیا ہے کہ موجودہ پٹیشن داخل کرنے کا مقصد یہ ہیکہ کمیشن کے دو ممبران کی میعاد دسمبر 2020 کے پہلے ہفتہ میں ختم ہوگئی ہے جن کی میعاد میں مزید پانچ سال کی توسیع یا انہیں دوبارہ منتخب کیے جانے کی حکومت ہند کی جانب سے کوشش کی جارہی ہے۔

جن دو ممبران کو دوبارہ منتخب کیے جانے کی کوشش کی جارہی ان میں ڈاکٹر بلجیت سنگھ مان اور ڈاکٹر ناہید عابدی ہیں جبکہ تیسرے ممبر ڈاکٹر جسپال سنگھ کی میعاد 2023 میں ختم ہوگی۔

کمیشن کے موجودہ چیئرمین جسٹس نریندر کمار جین کی میعادبھی 2023 میں ختم ہوگی۔ پٹیشن میں مزید کہا گیا ہیکہ چیئر پرسن اور ممبران کا انتخاب من مانے طریقے سے کیا گیا، کمیشن کے قانون کے مطابق ان کا انتخاب عمل میں نہیں آیا تھا۔

تین ممبران میں سے دو سکھ ہیں اور دیگر اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے جبکہ آبادی کے لحاظ سے مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہیں اس لئے کمیشن میں ان کی نمائندگی سب سے زیادہ ہونی چاہئے۔

پٹیشن میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیشن کے قانون کے مطابق کمیشن کے ممبران کو قانون کی معلومات ہونا ضروری ہے جبکہ موجودہ تینوں ممبران میں سے کسی بھی ممبر کا تعلق قانون کے شعبہ سے نہیں ہے جبکہ حکومت نے انہیں دوسرے قابل لوگوں پر ترجیح دیتے ہوئے اپنی مرضی سے منتخب کرلیا ہے جس کے خلاف پٹیشن داخل کی جارہی ہے تاکہ اگلی میعاد کے لیے ممبران کا تقرر ان کی قابلیت اور کمیشن کی ضرورت کے مطابق ہو تاکہ کمیشن کے ذریعہ اقلیتوں کو زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل ہوسکیں۔

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشدمدنی نے اس پر اپنے ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ حالیہ کچھ برسوں کے دوران متعدد خود مختار حکومتی اداروں کو بے وقعت اور ناکارہ بنانے کی کوششیں ہوئی ہیں ان میں قلیتی تعلیمی اداروں سے متعلق قومی کمیشن بھی شامل ہے، جس کی تشکیل 2004 میں باقاعدہ طورپر ایک ایکٹ کے ذریعہ ہوئی تھی اس طرح کے ایک خود مختارقومی کمیشن کے قیام کا مقصد اقلیتی تعلیمی اداروں کو چلانے میں آنے والی قانونی رکاوٹوں اور دوسری طرح کی دشواریوں کو دور کرنا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اپنے قیام کے ابتدائی کئی سالوں کے دوران اس کمیشن کی کارکردگی بہت شاندار رہی، کئی اہم اقلیتی تعلیمی اداروں کے تعلق سے کمیشن نے غیر معمولی نوعیت کے فیصلے بھی کئے جن میں جامعہ کے اقلیتی کردار کی بحالی کا اہم فیصلہ بھی تھا مگر اب یہ کمیشن بھی دوسرے حکومتی اداروں کی طرح نہ صرف ایک دکھاوے کا ادارہ بن کر رہ گیا ہے بلکہ اس کے ممبران کے تقرری میں بھی بڑی حدتک جانبداری برتی جارہی ہے اور اصول وضوابط کا بھی لحاظ نہیں رکھا جارہا ہے۔

مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کمیشن اقلیتی تعلیمی اداروں سے متعلق ہے اور چونکہ مسلمان ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہے اور دوسری اقلیتوں کی آبادی کا تناسب مسلم آبادی کے مقابلہ بہت کم ہے اس لئے اصولی طورپر اس کمیشن کے قیام کے بعد سے کسی ریٹائرڈمسلم جج کو ہی کمیشن کا سربراہ بنایا جاتا رہا لیکن مرکز میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد انتخاب کا یہ اصولی پیمانہ یکسر تبدیل کردیا گیا اور یہ کہ ممبران کی تقرری میں بھی جانبداری سے کام لیاجانے لگا۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن کے سربراہ اور ممبران کا انتخاب پہلے بھی مرکزی حکومت کے ذریعہ ہوتا تھا مگر اب واقعہ یہ ہے کہ حکومت اپنی پسند کے لوگوں کی تقرری یا ان کی مدت کار میں توسیع کر رہی ہے ایسے میں یہ امید کس طرح کی جاسکتی ہے کہ اقلیتی تعلیمی اداروں کے تعلق سے کسی معاملہ میں کارروائی کرتے اور فیصلہ سناتے وقت کمیشن غیرجانبداری کا مظاہرہ کرے گا۔

جمعیۃ علماء ہند نے اپنی پٹیشن میں یہ بھی کہا ہے کہ کمیشن کے ممبران کے انتخاب کے لئے سپریم کورٹ اپنی نگرانی میں ایک کمیٹی تشکیل دے تاکہ ممبروں کے انتخاب میں کسی طرح کی جانبداری کا امکان نہ پیدا ہو۔ مولانا مدنی نے یہ بھی کہا کہ چونکہ مسلمان آبادی کے لحاظ سے ملک کی سب سے بڑی اقلیت ہے اس لئے کمیشن میں مسلم ممبران کی تعداد ایک سے زیادہ ہونی چاہئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے اور کمیشن کے غیر جانبدارانہ کردارکو تحفظ فراہم کرانے کے لئے جمعیۃعلماء ہند نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے مولانا مدنی نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ جمعیۃ علماء ہند کی پٹیشن سپریم کورٹ نے سماعت کے لئے منظورکرلی ہے اور اس پر مرکزی حکومت سے جواب بھی طلب کیا ہے امید کی جانی چاہئے کہ معاملہ کی اہمیت کے پیش نظر عدالت جلد ہی اس پر کوئی مناسب فیصلہ بھی صادرکرے گی.

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.