ETV Bharat / state

نریندر مودی کے نام مسلم دانشوروں کا پیغام - letter to pm modi

مسلم دانشوروں، صحافیوں، علماء اور سماجی تنظیموں کے ممبرز کی جانب سے وزیراعظم نریندر مودی کو خط لکھا گیا جس میں  انہیں ایک تنظیم قائم کرنے میں مدد کی پیشکش کی گئی ہے۔ یہ تنظیم اقلیتوں اورغریبوں کے لیے ہوگا۔

PM Narander Modi
author img

By

Published : Jun 8, 2019, 5:54 PM IST


نریندر مودی کو اقلیتی مسائل پر مشورہ دینے کے لئے 19 مسلم امیدواروں کی پیشکش۔

شبنم ہاشمی جو انہد نامی این جی او کی کنوینر ہیں انہوں نے کہا کہ مودی کو لکھا گیا خط فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔

مسلم دانشوروں، صحافیوں، عالموں اور سماجی تنظیموں کے ممبرز کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا گیا جس میں انہیں ایک کمیٹی قائم کرنے میں مدد کی پیشکش کی گئی ہے۔ یہ کمیٹی اقلیتوں اور غریبوں کے لئے ہوگی۔

نریندر مودی نے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ پہلی میٹنگ کے دوران کہا تھا کہ کس طرح اقلیتوں کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہے اور تیقن دیا تھا کہ ان کا بھروسہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

جس طرح غریبوں کو دھوکہ دیا گیا اسی طرح اقلیتوں کو بھی دھوکہ دیا گیا ہے۔ یہ بہت اچھا ہوگا اگر ہم ان کی تعلیم اور صحت پر توجہ دیں۔ جو لوگ ووٹ بینک کی سیاست کرتے ہیں ان کی جانب سے اقلیتوں کو خوف زدہ رکھا گیا ہے ۔

میں آپ سے توقع کرتا ہوں کہ 2019 میں آپ اس دھوکہ کو توڑنے میں کامیاب ہوں گے۔ ہمیں ان کا اعتماد جیتنا ہے۔

خط میں زور دیا گیا کہ وزیر اعظم اپنے وعدہ کو پورا کریں جس کے لئے خط لکھنے والوں نے انہیں وقتاً فوقتاً ملاقات کرکے اقلیتوں سے متعلق مشورے دینے کے لئے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

صحت اور تعلیم سے متعلق وزیر اعظم کے بیان کی تعریف کرتے ہوئے خط میں کہا گیا کہ وزیر اعظم کو اعتماد حاصل کرنے کی جانب فوری توجہ دینے مناسب تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اپیل کی گئی ہے۔

خصوصاً اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ بے گناہوں کو غنڈوں سے بچایا جائے انہیں آزاد نہ چھوڑا جائے بلکہ سزا دی جائے۔ یہ کام پہلے دور میں نہیں ہوسکا۔

دستخط کرنے والوں میں ماہر تعلیم کمال فاروقی ، جمعیت علمائے ہند کے صدر محمود مدنی اور دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین ظفر الاسلام بھی شامل ہیں۔

حالانکہ انہد نامی غیر سرکاری تنظیم کی کنوینر شبنم ہاشمی نے خط سے عدم اتفاق ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ میرا نام شبنم ہاشمی ہے اور آپ میری نمائندگی نہیں کرتے ۔

انہوں نے کہا کہ خط میں آپ نے غنڈوں کے بارے میں نہیں پوچھا جو سڑکوں پر مسلمانوں اور دلتوں پر حملے کرتے ہیں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔

اس خط میں 23 مئی کے بعد ہونے والے ہجومی تشدد کے بارے میں نہیں پوچھا گیا۔

خطہ میں تین طلاق کو جرم قرار دینے کے متعلق نہیں پوچھا گیا۔

خط میں یہ نہیں پوچھا گیا کہ کس طرح جس نے کارگل کی جنگ لڑی اسے غیر ملکی قرار دے کر حراستی مرکز بھیجا گیا۔

اگر آپ گجرات اور مظفرنگر فسادات کے علاوہ گائے کے نام پر تشدد میں زائد 100ہلاکتیں بھول گئے تو این آر سی اور آر ایس ایس کا فرمان جس میں اقلیتوں کو معاشی طور پر ختم کرنے ، نفرت انگیز پیغامات پھیلانے اور انتخابات میں انہیں اپنی انتہا تک پہنچانے کو کیسے بھول سکتے ہیں؟

کیا یہ خوف ہے ؟ کیا یہ امن خرید رہا ہے ؟ کیا اس کے پیچھے کوئی نہیں ہے؟۔

اگر آپ نے یہ سب کچھ بے خوف ہو کر لکھا ہوتا تو میں آپ کا نام نہیں لیتی بلکہ میری ہمدردی آپ کے ساتھ ہوتی۔

میں آپ سے پھر کہنا چاہوں گی کہ میرا نام شبنم ہاشمی ہے اور میں ایک باعمل مسلمان نہیں ہوں لیکن اس ملک میں میرے ساتھ دوسرا سلوک کیا جارہا ہے اور یقینا آپ میری نمائندگی نہیں کرتے۔

لوک سبھا حلقہ میں بی جے پی میں کوئی بھی مسلم نمائندگی نہیں ہے۔

19 سیول سوسائٹی کے نمائندوں کی جانب سے مودی کو مشورہ دینے کے لئے لکھا جانے والا خط اہم ظاہر ہورہا ہے حالانکہ لوک سبھا میں اقلیتی اراکین کی تھوڑی تعداد موجود ہے۔

مسلمانوں کم تناسب دیا گیا خصوصاً نئی لوک سبھا میں صرف 26 مسلم اراکین پارلیمنٹ ہیں جو 4.7 فیصد ہیں جبکہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد ہے ۔

بی جے پی 436 نشستوں پر مقابلہ کیا تھا جس میں سے صرف 6 مسلم امیدواروں کو کھڑا کیا گیا جن میں سے تین جموں اور کشمیر سے جبکہ دو مغربی بنگال اور ایک لشکا دیپ سے تھے ان میں سے کوئی بھی نہیں جیت پایا۔

اس سے بھی حیرت انگیز یہ کہ لوک سبھا میں صرف ایک مسلم رکن پارلیمنٹ محبوب علی قیصر بہار کے کھگاریا سے ہے جو حکمران اتحاد سے ہیں جبکہ کابینہ میں صرف ایک مسلم وزیر مختار عباس نقوی ہیں ۔

کھلے خط میں مندرجہ ذیل لوگوں نے دستخط ثبت کئے ہیں۔

کمال فاروقی : ۔ ماہر تعلیم ، سابق چیرمین دہلی اقلیتی کمیشن

افضل لطیف ، ماہر تعلیم اور فلسفی

امین مدنی ، سابق اے جی ایم ۔ ایس بی آئی ، ماہر تعلیم اور فلسفی

اے آر خان ، سابق آئی اے ایس اور صدر پروگریسیو مسلم سوشل سرکل جئے پور۔

فخر الدین محمد ، چیر مین میسکو گروپ آف انسٹی ٹیوشن حیدرآباد

کلیم الحفیظ ، ماہر تعلیم اور جنرل سکریٹری ، جمعیت علمائے ہند

مظہر حسین ، سماجی اور تعلیمی کارکن

معصوم مراد آبادی ، صحافی اور ممبر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت

نازیہ اے فاروقی، ماہر تعلیم اور سکریٹری ، جمعیت علمائے ہند

پی اے انعامدار ، ماہر تعلیم

قیصر شمیم ، سابق آئی آر ایس

قمر احمد ، سابق آئی پی ایس

صلاح الدین احمد صدیقی ، ماہر تعلیم

شبی احمد ، سی ای او انجمن اسلام ممبئی

ایس ظفر محمود ، صدر زکوۃ فانوڈیشن آف انڈیا

شاہد انور ، صدر ماڈرن پبلک اسکول

ظفر الاسلام ، چیرمین دہلی اقلیتی کمیشن

ظہیر قاضی ، ماہر تعلیم


نریندر مودی کو اقلیتی مسائل پر مشورہ دینے کے لئے 19 مسلم امیدواروں کی پیشکش۔

شبنم ہاشمی جو انہد نامی این جی او کی کنوینر ہیں انہوں نے کہا کہ مودی کو لکھا گیا خط فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا۔

مسلم دانشوروں، صحافیوں، عالموں اور سماجی تنظیموں کے ممبرز کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھا گیا جس میں انہیں ایک کمیٹی قائم کرنے میں مدد کی پیشکش کی گئی ہے۔ یہ کمیٹی اقلیتوں اور غریبوں کے لئے ہوگی۔

نریندر مودی نے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ پہلی میٹنگ کے دوران کہا تھا کہ کس طرح اقلیتوں کے ساتھ بُرا سلوک کیا جاتا ہے اور تیقن دیا تھا کہ ان کا بھروسہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

جس طرح غریبوں کو دھوکہ دیا گیا اسی طرح اقلیتوں کو بھی دھوکہ دیا گیا ہے۔ یہ بہت اچھا ہوگا اگر ہم ان کی تعلیم اور صحت پر توجہ دیں۔ جو لوگ ووٹ بینک کی سیاست کرتے ہیں ان کی جانب سے اقلیتوں کو خوف زدہ رکھا گیا ہے ۔

میں آپ سے توقع کرتا ہوں کہ 2019 میں آپ اس دھوکہ کو توڑنے میں کامیاب ہوں گے۔ ہمیں ان کا اعتماد جیتنا ہے۔

خط میں زور دیا گیا کہ وزیر اعظم اپنے وعدہ کو پورا کریں جس کے لئے خط لکھنے والوں نے انہیں وقتاً فوقتاً ملاقات کرکے اقلیتوں سے متعلق مشورے دینے کے لئے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

صحت اور تعلیم سے متعلق وزیر اعظم کے بیان کی تعریف کرتے ہوئے خط میں کہا گیا کہ وزیر اعظم کو اعتماد حاصل کرنے کی جانب فوری توجہ دینے مناسب تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے اپیل کی گئی ہے۔

خصوصاً اس بات کو اجاگر کیا گیا کہ بے گناہوں کو غنڈوں سے بچایا جائے انہیں آزاد نہ چھوڑا جائے بلکہ سزا دی جائے۔ یہ کام پہلے دور میں نہیں ہوسکا۔

دستخط کرنے والوں میں ماہر تعلیم کمال فاروقی ، جمعیت علمائے ہند کے صدر محمود مدنی اور دہلی اقلیتی کمیشن کے چیرمین ظفر الاسلام بھی شامل ہیں۔

حالانکہ انہد نامی غیر سرکاری تنظیم کی کنوینر شبنم ہاشمی نے خط سے عدم اتفاق ظاہر کرتے ہوئے لکھا کہ میرا نام شبنم ہاشمی ہے اور آپ میری نمائندگی نہیں کرتے ۔

انہوں نے کہا کہ خط میں آپ نے غنڈوں کے بارے میں نہیں پوچھا جو سڑکوں پر مسلمانوں اور دلتوں پر حملے کرتے ہیں اور خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں۔

اس خط میں 23 مئی کے بعد ہونے والے ہجومی تشدد کے بارے میں نہیں پوچھا گیا۔

خطہ میں تین طلاق کو جرم قرار دینے کے متعلق نہیں پوچھا گیا۔

خط میں یہ نہیں پوچھا گیا کہ کس طرح جس نے کارگل کی جنگ لڑی اسے غیر ملکی قرار دے کر حراستی مرکز بھیجا گیا۔

اگر آپ گجرات اور مظفرنگر فسادات کے علاوہ گائے کے نام پر تشدد میں زائد 100ہلاکتیں بھول گئے تو این آر سی اور آر ایس ایس کا فرمان جس میں اقلیتوں کو معاشی طور پر ختم کرنے ، نفرت انگیز پیغامات پھیلانے اور انتخابات میں انہیں اپنی انتہا تک پہنچانے کو کیسے بھول سکتے ہیں؟

کیا یہ خوف ہے ؟ کیا یہ امن خرید رہا ہے ؟ کیا اس کے پیچھے کوئی نہیں ہے؟۔

اگر آپ نے یہ سب کچھ بے خوف ہو کر لکھا ہوتا تو میں آپ کا نام نہیں لیتی بلکہ میری ہمدردی آپ کے ساتھ ہوتی۔

میں آپ سے پھر کہنا چاہوں گی کہ میرا نام شبنم ہاشمی ہے اور میں ایک باعمل مسلمان نہیں ہوں لیکن اس ملک میں میرے ساتھ دوسرا سلوک کیا جارہا ہے اور یقینا آپ میری نمائندگی نہیں کرتے۔

لوک سبھا حلقہ میں بی جے پی میں کوئی بھی مسلم نمائندگی نہیں ہے۔

19 سیول سوسائٹی کے نمائندوں کی جانب سے مودی کو مشورہ دینے کے لئے لکھا جانے والا خط اہم ظاہر ہورہا ہے حالانکہ لوک سبھا میں اقلیتی اراکین کی تھوڑی تعداد موجود ہے۔

مسلمانوں کم تناسب دیا گیا خصوصاً نئی لوک سبھا میں صرف 26 مسلم اراکین پارلیمنٹ ہیں جو 4.7 فیصد ہیں جبکہ ملک میں مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد ہے ۔

بی جے پی 436 نشستوں پر مقابلہ کیا تھا جس میں سے صرف 6 مسلم امیدواروں کو کھڑا کیا گیا جن میں سے تین جموں اور کشمیر سے جبکہ دو مغربی بنگال اور ایک لشکا دیپ سے تھے ان میں سے کوئی بھی نہیں جیت پایا۔

اس سے بھی حیرت انگیز یہ کہ لوک سبھا میں صرف ایک مسلم رکن پارلیمنٹ محبوب علی قیصر بہار کے کھگاریا سے ہے جو حکمران اتحاد سے ہیں جبکہ کابینہ میں صرف ایک مسلم وزیر مختار عباس نقوی ہیں ۔

کھلے خط میں مندرجہ ذیل لوگوں نے دستخط ثبت کئے ہیں۔

کمال فاروقی : ۔ ماہر تعلیم ، سابق چیرمین دہلی اقلیتی کمیشن

افضل لطیف ، ماہر تعلیم اور فلسفی

امین مدنی ، سابق اے جی ایم ۔ ایس بی آئی ، ماہر تعلیم اور فلسفی

اے آر خان ، سابق آئی اے ایس اور صدر پروگریسیو مسلم سوشل سرکل جئے پور۔

فخر الدین محمد ، چیر مین میسکو گروپ آف انسٹی ٹیوشن حیدرآباد

کلیم الحفیظ ، ماہر تعلیم اور جنرل سکریٹری ، جمعیت علمائے ہند

مظہر حسین ، سماجی اور تعلیمی کارکن

معصوم مراد آبادی ، صحافی اور ممبر آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت

نازیہ اے فاروقی، ماہر تعلیم اور سکریٹری ، جمعیت علمائے ہند

پی اے انعامدار ، ماہر تعلیم

قیصر شمیم ، سابق آئی آر ایس

قمر احمد ، سابق آئی پی ایس

صلاح الدین احمد صدیقی ، ماہر تعلیم

شبی احمد ، سی ای او انجمن اسلام ممبئی

ایس ظفر محمود ، صدر زکوۃ فانوڈیشن آف انڈیا

شاہد انور ، صدر ماڈرن پبلک اسکول

ظفر الاسلام ، چیرمین دہلی اقلیتی کمیشن

ظہیر قاضی ، ماہر تعلیم

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.