بھارت اور پاکستان میں تعزیہ سازی ایک فن ہے جو صدیوں سے سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا آ رہا ہے۔ دونوں ممالک کی کئی نسلیں اور کئی ثقافتیں اسے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
محرم کے جلوسوں میں تعزیوں کی زیارت نہ صرف متبرک سمجھی جاتی ہے بلکہ ان پر دھاگے باندھنا اور منت ماننا بھی سالہا سال سے چلی آرہی روایات کا ایک حصہ ہے۔
تاہم رواں برس گذشتہ برسوں سے مختلف رہا۔ اس برس نہ تو عاشورہ کے روز ماتمی جلوس نکالنے کی اجازت دی گئی اور نہ ہی چہلم پر کی جانے والی تعزیہ داری کے جلوسوں کو اجازت دی گئی۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے پرانی دہلی کی گلی سیدان میں واقع 800 سو سالہ قدیم عزاخانہ 'محبت علی' کے ذمہ دار و تعزیہ دار عادل حسین رضوی سے بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ کیا تعزیہ کی اجازت نہ ملنے سے وہ کافی غمزدہ ہیں لیکن کورونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لیے رہنما ہدایات پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔
شیعہ جامع مسجد کے امام مولانا سید محسن تقی نے بتایا کہ بھارت میں چہلم پر تعزیہ برآمد کرنے کی روایت قدیم زمانے سے چلی آ رہی ہے اور یہ نواسۂ رسول سے دیرینہ عقیدت پیش کرنے کا ایک طریقہ ہے جسے بھارت اور پاکستان میں اپنایا جاتا ہے۔