دہلی: سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا، لکھنے والے معروف شاعر علامہ اقبال سے متعلق ایک باب کو دہلی یونیورسٹی کے چھٹے سمسٹر کے نصاب سے ختم کیے جانے کے فیصلے کے خلاف مسلسل آوازیں بلند کی جارہی ہیں اس فیصلے کی مخالفت کر رہے لوگوں کا کہنا ہے کہ جس شخص نے ہمیں قومی ترانہ دیا اور اسی کے نام سے دہلی یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے ایک باب کو ختم کیے جانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں۔ دراصل دہلی یونیورسٹی کی گورننگ کونسل کے ذریعے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ چھٹے سمسٹر کے پولیٹیکل سائنس میں علامہ اقبال پر ایک چیپٹر ہے جسے اب نصاب سے ہٹانے کا منصوبہ ہے۔ اسی سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے مسلم سحر فاؤنڈیشن کے صدر مسرور احمد صدیقی سے بات کی۔ جس میں انہوں نے بتایا کہ علامہ اقبال نے بھارت کی آزادی سے قبل اپنا اہم کردار ادا کیا ہے وہ ایک ادبی شخص تھے ان کے کام کو نہ صرف بھارت میں بلکہ بر صغیر کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں سراہا گیا ہے۔ اگر آپ کو علامہ اقبال کو نصاب سے ہٹانا ہی تھا تو اس پر پہلے ادبی شخصیات کی ایک کمیٹی بناکر بحث و مباحثہ کیا جانا چاہیے تھا۔
مسرور صدیقی نے کہا کہ ان کی ادبی خدمات کا ہر کوئی اعتراف کرتا ہے آج ملک بھر میں ان کا لکھا قومی ترانہ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا گنگنایا جاتا ہے۔ خود پارلیمنٹ میں بھی یہ گنگنایا جاتا ہے ایسے میں یہ قدم انتہائی افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کل یہ سب جو ہر رہا ہے وہ دراصل بھگوا سیاست کا ایک حصہ ہے جس کی وجہ سے تمام چیزوں کو ایک ہی چشمہ سے دیکھا جا رہا ہے تاہم اس طرح سے علامہ اقبال کو ٹارگٹ کرنا بالکل درست نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو شخص آج اس دنیا میں ہی نہیں ہے اس سے کیسی پریشانی۔
یہ بھی پڑھیں : DU on Poet Iqbal Chapter دہلی یونیورسٹی کا نصاب سے علامہ اقبال کا باب ہٹانے کا اعلان، حتمی فیصلہ باقی