ETV Bharat / state

Mirza Ghalib 225th Birth Anniversary شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج

اردو زبان کے نامور شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا آج 224واں یوم پیدائش ہے۔ غالب وہ شخص ہیں جنہوں نے اردو غزل کو دوام بخشا ہے۔ جب تک اردو زندہ ہے غالب یاد کیے جاتے رہیں گے۔ برصغیر ہند اور دنیا بھر کے اردو داں طبقے میں آج اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خان غالب کا 224واں یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔ Mirza Asadullah Khan Ghalib Birth Anniversary

شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج
شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج
author img

By

Published : Dec 27, 2022, 9:41 AM IST

مرزا غالب کا پورا نام اسد اللہ خاں غالب ہے۔ مرزا اسداللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو کالا محل، آگرہ میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام عبداللہ بیگ اور والدہ کا نام عزت النسا بیگم تھا۔ 13 برس کی عمر میں غالب کی شادی امراؤ بیگم سے ہوئی۔ شادی کے بعد غالب دہلی میں ہمیشہ کے لیے منتقل ہوگئے۔ لیکن غالب کی کوئی اولاد بھی پیدائش کے بعد جانبر نہ رہ پائی۔ ان سانحے کا غالب کی طبیعت پر گہرا اثر ہوا اور اس کا رنگ شاعری میں بھی نمایاں رہا۔ اردو زبان و ادب کے سب سے بڑے اور عظیم شاعر کہے جانے والے مرزا اسد اللہ خاں غالب کا آج یوم پیدائش ہے۔ جہاں اٹھارھویں صدی میر کی صدی کہی جاتی ہے تو وہیں انیسویں صدی غالب اور بیسویں صدی علامہ اقبال کی کہی جاتی ہے۔ Mirza Asadullah Khan Ghalib 225th Birth Anniversary

شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج
شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج

اٹھارھویں صدی کے اواخر میں غالب کی پیدائش 27 دسمبر 1797 میں عبداللہ بیگ کے یہاں ہوتی ہے۔ پانچ برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔ چچا نصر اللہ بیگ نے ان کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن نو برس کی عمر میں ان کی بھی وفات ہو جاتی ہے۔ 13 برس کی عمر میں نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی مرزا الٰہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراؤ بیگم سے غالب ازدواجی زندگی میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران غالب دہلی کوچ کر جاتے اور وہیں کے ہمیشہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

Faiz Ahmad Faiz: فیض احمد فیض کی 37ویں برسی پر خراجِ عقیدت

شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ برابر قرض میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ چچا کی وفات کے بعد نواب احمد الٰہی بخش خاں نے غالب کے خاندان کا وظیفہ انگریزی حکومت سے مقرر کرا دیا تھا۔ لیکن یہ وظیفہ زیادہ دن نہ مل سکا۔ جس کے لیے غالب نے 1827 میں کلکتہ کا سفر بھی کیا۔ اس دوران وہ لکھنؤ اور بنارس میں چند ماہ رکے بھی۔ مولانا الطاف حسین حالی یادگار غالب میں سفر کلکتہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 'ظاہراً مرزا نے کوئی لمبا سفر کلکتہ کے سوا نہیں کیا۔ اسی سفر کی آمد و رفت میں وہ چند ماہ لکھنؤ اور بنارس میں بھی ٹھہرے تھے'۔ پینشن کے لیے کیا گیا کلکتہ کا سفر کامیاب ثابت نہ ہوا، غالب کو وہاں بھی مایوسی حاصل ہوئی۔ جس کے بعد مرزا نے ولایت میں اپیل کی، مگر وہاں بھی کچھ نہ ہوا۔

شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج
شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج

عمر کے آخری ایام میں غالب کو کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد غالب نے قلعہ معلیٰ میں مجبور ہو کر ملازمت اختیار کرلی۔ 1850 میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا کیے اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا جس کا 50 روپیے ماہوار مقرر کیا گیا۔ غالب نے اپنی نظروں کے سامنے دہلی کو اجڑتے ہوئے دیکھا تھا، 1857 کی جنگ کے حالات غالب نے اپنی ڈائری 'دستنبو' میں درج کیے۔

یہ بھی پڑھیں:

اردو کا یہ عظیم شاعر 15 فروری 1869 میں اس دنیا کو پرانی دہلی کی گلی قاسم جان، محلہ بلی ماراں میں خیرآباد کہہ دیتا ہے۔ غالب نے اردو غزل کی خدمت ہی نہیں بلکہ اس کو حیات دائمی بخشا ہے۔ مرزا غالب اردو کے زندہ رہنے تک یاد کیے جاتے رہیں گے۔ عبدالرحمٰن بجنوری نے غالب کی شاعری کے حوالے سے لکھا ہے کہ 'ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں، 'وید مقدس' اور 'دیوان غالب'۔ غالب کے حوالے سے عبادت بریلوی لکھتے ہیں کہ 'غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے'۔

شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج
شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج

ان کا مشہور شعر ہے جو سادہ زبان میں عام ہے۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

غالب نے قدیم شاعری کی روایت کو توڑنے کا کام کیا ہے۔ جہاں ان سے قبل غزل صرف محبوب کے گیسو و عارض میں الجھی تھی، غالب نے اس کے مضامین میں وسعت بخشی۔ فلسفہ، طنز و مزاح، صوفیانہ رنگ، زندگی کے حقیقی مجازی پہلو اور پیکر تراشی، غرض کئی طرح کے مضامین سے اردو شاعری کو جلا بخشی۔

غالب کے کچھ مشہور اشعار یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

غالب کی کوئی اولاد نہیں تھی استقرار حمل اور پیدائش کے بعد کوئی اولاد جانبر نہ رہ پائی۔ ان سانحے کا غالب کی طبیعت پر گہرا اثر ہوا اور اس کا رنگ شاعری میں بھی نمایاں رہا۔

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔ غالب کی شاعری کا انداز منفرد تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔ مرزا اسد اللہ خان غالب نے دیوان کے ڈھیر لگانے کے بجائے بہترین شاعری کے حامل چند ہزار اشعار کہے ہیں اور ان کے خطوط کو بھی اردو ادب میں خاص درجہ حاصل ہے۔ غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا، جنون، انسانی معاملات، نفسیات، فلسفہ، کائناتی اسلوب اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

سبزہ و گل کہاں سے آئے

ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے

مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔ نثر کے میدان میں غالب نے کوئی فن پارہ تخلیق نہیں کیا لیکن منفرد انداز سے خط نگاری کی اور یوں 'غالب کے خطوط' اپنے لب و لہجے، اندازِ بیان، لفظوں کے انتخاب اور نثر میں شاعرانہ انداز کے باوصف اردو ادب کا وہ شاندار شاہکار سرمایہ ثابت ہوئے جسے ان کے انتقال کے بعد یکجا کیا گیا۔

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے

ہر اک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

غالب کی شاعری اور نثر نے اردو ادب پر گہرے نقوش چھوڑے اور انہوں نے فارسی اسلوب کے علاوہ سنجیدہ اور سلیس زبان میں بھی نہایت گہرے اشعار پیش کیے۔ اس ضمن میں دیوانِ غالب کئی اشعار سے بھرا ہوا ہے۔ غالب زندگی بھر تنگ دستی اور غربت کے شکار رہے۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہمارے فاقہ مستی ایک دن

ایک طرف انگریز سرکار کی جانب سے انہیں اپنی ہی جائیداد میں حصہ نہ مل سکا تو دوسری جانب کفایت شعاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ زندگی بھر تہی دست رہے۔ عمر کے آخری دنوں میں ان کی رسائی مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے محل میں ہوئی اور انہیں نجم الدولہ اور دبیرالملک کے خطاب سے نوازا گیا، خلعت دی گئی اور معاوضہ بھی مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد جنگِ آزادی کے سلسلے میں گلی گلی جنگ چھڑگئی اور دہلی کو تاراج کیا گیا۔ بے شمار لوگوں کو انگریزوں نے سرِ عام پھانسی دی جس نے مرزا غالب کی نفسیات کو جھنجھوڑ کررکھ دیا یہاں تک کہ خود مغلیہ سلطنت بے عمل ہوکر رہ گئی تھی اور اس کے بعد پورا بھارت انگریزوں کے قبضے میں چلاگیا۔ فساد، سورش اور غارت گری کے سارے واقعات خود مرزا غالب نے آپنی آنکھوں سے دیکھے اور شدید افسردہ اور غمگین رہے۔ 15 فروری 1869ء میں مرزا غالب اس جہانِ فانی کو چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔

ہوئی مدت کہ 'غالب' مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

مرزا غالب کا پورا نام اسد اللہ خاں غالب ہے۔ مرزا اسداللہ خان غالب 27 دسمبر 1797 کو کالا محل، آگرہ میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام عبداللہ بیگ اور والدہ کا نام عزت النسا بیگم تھا۔ 13 برس کی عمر میں غالب کی شادی امراؤ بیگم سے ہوئی۔ شادی کے بعد غالب دہلی میں ہمیشہ کے لیے منتقل ہوگئے۔ لیکن غالب کی کوئی اولاد بھی پیدائش کے بعد جانبر نہ رہ پائی۔ ان سانحے کا غالب کی طبیعت پر گہرا اثر ہوا اور اس کا رنگ شاعری میں بھی نمایاں رہا۔ اردو زبان و ادب کے سب سے بڑے اور عظیم شاعر کہے جانے والے مرزا اسد اللہ خاں غالب کا آج یوم پیدائش ہے۔ جہاں اٹھارھویں صدی میر کی صدی کہی جاتی ہے تو وہیں انیسویں صدی غالب اور بیسویں صدی علامہ اقبال کی کہی جاتی ہے۔ Mirza Asadullah Khan Ghalib 225th Birth Anniversary

شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج
شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج

اٹھارھویں صدی کے اواخر میں غالب کی پیدائش 27 دسمبر 1797 میں عبداللہ بیگ کے یہاں ہوتی ہے۔ پانچ برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے۔ چچا نصر اللہ بیگ نے ان کی پرورش کی ذمہ داری سنبھالی، لیکن نو برس کی عمر میں ان کی بھی وفات ہو جاتی ہے۔ 13 برس کی عمر میں نواب احمد بخش خاں کے چھوٹے بھائی مرزا الٰہی بخش خاں معروف کی بیٹی امراؤ بیگم سے غالب ازدواجی زندگی میں منسلک ہو جاتے ہیں۔ اسی دوران غالب دہلی کوچ کر جاتے اور وہیں کے ہمیشہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:

Faiz Ahmad Faiz: فیض احمد فیض کی 37ویں برسی پر خراجِ عقیدت

شادی کے بعد مرزا کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ برابر قرض میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ چچا کی وفات کے بعد نواب احمد الٰہی بخش خاں نے غالب کے خاندان کا وظیفہ انگریزی حکومت سے مقرر کرا دیا تھا۔ لیکن یہ وظیفہ زیادہ دن نہ مل سکا۔ جس کے لیے غالب نے 1827 میں کلکتہ کا سفر بھی کیا۔ اس دوران وہ لکھنؤ اور بنارس میں چند ماہ رکے بھی۔ مولانا الطاف حسین حالی یادگار غالب میں سفر کلکتہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 'ظاہراً مرزا نے کوئی لمبا سفر کلکتہ کے سوا نہیں کیا۔ اسی سفر کی آمد و رفت میں وہ چند ماہ لکھنؤ اور بنارس میں بھی ٹھہرے تھے'۔ پینشن کے لیے کیا گیا کلکتہ کا سفر کامیاب ثابت نہ ہوا، غالب کو وہاں بھی مایوسی حاصل ہوئی۔ جس کے بعد مرزا نے ولایت میں اپیل کی، مگر وہاں بھی کچھ نہ ہوا۔

شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج
شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج

عمر کے آخری ایام میں غالب کو کافی مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد غالب نے قلعہ معلیٰ میں مجبور ہو کر ملازمت اختیار کرلی۔ 1850 میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو نجم الدولہ، دبیر الملک اور نظام جنگ کے خطابات عطا کیے اور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر مامور کیا جس کا 50 روپیے ماہوار مقرر کیا گیا۔ غالب نے اپنی نظروں کے سامنے دہلی کو اجڑتے ہوئے دیکھا تھا، 1857 کی جنگ کے حالات غالب نے اپنی ڈائری 'دستنبو' میں درج کیے۔

یہ بھی پڑھیں:

اردو کا یہ عظیم شاعر 15 فروری 1869 میں اس دنیا کو پرانی دہلی کی گلی قاسم جان، محلہ بلی ماراں میں خیرآباد کہہ دیتا ہے۔ غالب نے اردو غزل کی خدمت ہی نہیں بلکہ اس کو حیات دائمی بخشا ہے۔ مرزا غالب اردو کے زندہ رہنے تک یاد کیے جاتے رہیں گے۔ عبدالرحمٰن بجنوری نے غالب کی شاعری کے حوالے سے لکھا ہے کہ 'ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں، 'وید مقدس' اور 'دیوان غالب'۔ غالب کے حوالے سے عبادت بریلوی لکھتے ہیں کہ 'غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے'۔

شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج
شہنشاہ غزل مرزا اسد اللہ خاں غالب کو یوم پیدائش پر خراج

ان کا مشہور شعر ہے جو سادہ زبان میں عام ہے۔۔۔ ملاحظہ فرمائیں

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

غالب نے قدیم شاعری کی روایت کو توڑنے کا کام کیا ہے۔ جہاں ان سے قبل غزل صرف محبوب کے گیسو و عارض میں الجھی تھی، غالب نے اس کے مضامین میں وسعت بخشی۔ فلسفہ، طنز و مزاح، صوفیانہ رنگ، زندگی کے حقیقی مجازی پہلو اور پیکر تراشی، غرض کئی طرح کے مضامین سے اردو شاعری کو جلا بخشی۔

غالب کے کچھ مشہور اشعار یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق

وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل

جب آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا

اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

غالب کی کوئی اولاد نہیں تھی استقرار حمل اور پیدائش کے بعد کوئی اولاد جانبر نہ رہ پائی۔ ان سانحے کا غالب کی طبیعت پر گہرا اثر ہوا اور اس کا رنگ شاعری میں بھی نمایاں رہا۔

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے

دہلی میں پرورش پانے والے غالب نے کم سنی ہی میں شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔ غالب کی شاعری کا انداز منفرد تھا، جسے اس وقت کے استاد شعراء نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ان کی سوچ دراصل حقیقی رنگوں سے عاری ہے۔ مرزا اسد اللہ خان غالب نے دیوان کے ڈھیر لگانے کے بجائے بہترین شاعری کے حامل چند ہزار اشعار کہے ہیں اور ان کے خطوط کو بھی اردو ادب میں خاص درجہ حاصل ہے۔ غالب کی شاعری میں روایتی موضوعات یعنی عشق، محبوب، رقیب، آسمان، آشنا، جنون، انسانی معاملات، نفسیات، فلسفہ، کائناتی اسلوب اور ایسے ہی دیگر کا انتہائی عمدہ اور منفرد انداز میں بیان ملتا ہے۔

سبزہ و گل کہاں سے آئے

ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے

مرزا غالب اپنے اس انداز سے یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ وہ اگر اس انداز میں فکری اور فلسفیانہ خیالات عمدگی سے باندھ سکتے ہیں تو وہ لفظوں سے کھیلتے ہوئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ غالب کا اصل کمال یہ تھا کہ وہ زندگی کے حقائق اور انسانی نفسیات کو گہرائی میں جاکر سمجھتے تھے اور بڑی سادگی سے عام لوگوں کے لیے اپنے اشعار میں بیان کردیتے تھے۔ نثر کے میدان میں غالب نے کوئی فن پارہ تخلیق نہیں کیا لیکن منفرد انداز سے خط نگاری کی اور یوں 'غالب کے خطوط' اپنے لب و لہجے، اندازِ بیان، لفظوں کے انتخاب اور نثر میں شاعرانہ انداز کے باوصف اردو ادب کا وہ شاندار شاہکار سرمایہ ثابت ہوئے جسے ان کے انتقال کے بعد یکجا کیا گیا۔

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارماں مگر پھر بھی کم نکلے

ہر اک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے

تمہیں کہو کہ یہ انداز گفتگو کیا ہے

غالب کی شاعری اور نثر نے اردو ادب پر گہرے نقوش چھوڑے اور انہوں نے فارسی اسلوب کے علاوہ سنجیدہ اور سلیس زبان میں بھی نہایت گہرے اشعار پیش کیے۔ اس ضمن میں دیوانِ غالب کئی اشعار سے بھرا ہوا ہے۔ غالب زندگی بھر تنگ دستی اور غربت کے شکار رہے۔

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہمارے فاقہ مستی ایک دن

ایک طرف انگریز سرکار کی جانب سے انہیں اپنی ہی جائیداد میں حصہ نہ مل سکا تو دوسری جانب کفایت شعاری نہ ہونے کی وجہ سے وہ زندگی بھر تہی دست رہے۔ عمر کے آخری دنوں میں ان کی رسائی مغل سلطنت کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے محل میں ہوئی اور انہیں نجم الدولہ اور دبیرالملک کے خطاب سے نوازا گیا، خلعت دی گئی اور معاوضہ بھی مقرر کیا گیا۔ اس کے بعد جنگِ آزادی کے سلسلے میں گلی گلی جنگ چھڑگئی اور دہلی کو تاراج کیا گیا۔ بے شمار لوگوں کو انگریزوں نے سرِ عام پھانسی دی جس نے مرزا غالب کی نفسیات کو جھنجھوڑ کررکھ دیا یہاں تک کہ خود مغلیہ سلطنت بے عمل ہوکر رہ گئی تھی اور اس کے بعد پورا بھارت انگریزوں کے قبضے میں چلاگیا۔ فساد، سورش اور غارت گری کے سارے واقعات خود مرزا غالب نے آپنی آنکھوں سے دیکھے اور شدید افسردہ اور غمگین رہے۔ 15 فروری 1869ء میں مرزا غالب اس جہانِ فانی کو چھوڑ کر خالقِ حقیقی سے جاملے۔

ہوئی مدت کہ 'غالب' مر گیا پر یاد آتا ہے

وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.