دہلی: جسٹس یو یو للت اور جسٹس ایس رویندر بھٹ کی بنچ نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے لیڈر اور وکیل اشونی کمار اپادھیائے کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں 1957 سے ایک قانون ہے کہ مذہبی اور لسانی اقلیت کے درجے کا فیصلہ ریاست کے لحاظ سے کیا جائے گا۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ضلع سطح پر اقلیتوں کی نشاندہی کی عرضی عدالت عظمیٰ کے 11 ججوں پر مشتمل بنچ کے فیصلے کے خلاف تھی اور اسی لیے وہ قابل سماعت نہیں ہے۔ بی جے پی لیڈر کی درخواست میں قومی اقلیتی کمیشن ایکٹ کی دفعات کو بھی چیلنج کیا گیا تھا۔
اپادھیائے نے اپنی عرضی میں 1993 کے اس نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا تھا جس میں مسلمان، سکھ، بدھسٹ، پارسی اور جین طبقے کو قومی سطح پر اقلیت قرار دیا گیا تھا۔ اپنی درخواست میں انہوں نے سپریم کورٹ سے اپیل کی ہے کہ وہ ہندوؤں کو ان ریاستوں میں اقلیت قرار دینے کی ہدایت دے جہاں ان کی تعداد دیگر برادریوں سے کم ہے۔ بنچ نے عرضی گزار سے کہاکہ 'آئینی طور پر، آپ درست ہوسکتے ہیں۔ ہندو بہت سی ریاستوں میں اقلیت میں ہوسکتے ہیں'۔
سپریم کورٹ نے دیوکی نندن ٹھاکر کی طرف سے دائر درخواست کو ستمبر کے پہلے ہفتے میں سماعت کے لیے درج فہرست کرنے کی ہدایت دی۔ درخواست میں اقلیتوں کی شناخت قومی سطح کے بجائے ضلعی سطح پر کرنے کی ہدایت دینے کی اپیل کی گئی ہے۔ بنچ نے کہا کہ عدالت نے کئی بار کہا ہے کہ اقلیتوں کی شناخت ریاستی سطح پر ہونی چاہیے۔ اسے'کیس ٹو کیس' کی بنیاد پر کیا جانا چاہیے۔
یو این آئی
یہ بھی پڑھیں: Kapil Sibal Slams Supreme Court: سُپریم کورٹ میں حساس معاملات مخصوص ججز کو دیے جاتے ہیں، کپل سبل