نئی دہلی : جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ سوشل ورک نے اور انکور سوسائٹی فار الٹرنیٹوز ان ایجوکیشن نے بحران جیسے حالات میں پسماندہ طبقہ کے بچوں میں لچیلے پن کی تعمیر میں تخلیقیت کے رول کی تفہیم کے لیے ایک انٹر ایکٹیو سیشن منعقد کیا۔ جس میں اسٹوڈنٹ ایڈوائزر ڈاکٹر رشمی جین نے شعبے کے سمینار روم میں منعقدہ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض انجام دیئے۔ صدر شعبہ پروفیسر نیلم سکھرامنی نے اجلاس میں میٹنگ کی تھیم متعارف کراتے ہوئے شرکا سے کہا کہ وہ تعلیم کے معنی سے متعلق اور تعلیم کے حصول سوال پر غور وخوض کریں۔ انھوں نے شرکا سے کہا کہ وہ ان سوالات پر روایتی تحدیدات اور معیار سے ہٹ کر منفرد انداز میں غوو خوض کریں۔ 2020 کی قومی تعلیمی پالیسی کا زور نوجوانوں میں تخلیقیت،دانشوارنہ تجسس اورجذبہ خدمت کی نشو نما بھی اس تصور سے میل کھاتا ہے۔
اجلاس کے پہلے حصے میں شعبے کے دو سابق طالب علموں حدیقہ الیاسر اور ویپل کمار جھا نے تعلیم پر بحران کے مضر اثرات سے متعلق اپنے ماسٹر ڈیزرٹیشن سے چند تحقیقات پیش کیں۔ حدیقت کی تحقیق پلوامہ، جموں اور کشمیر میں طویل عرصے تک لاک ڈاؤن میں پھنسے بچوں کی سماجی و تعلیمی زندگی پر مرکوز تھی اور ویپل کمار جھا نے آن لائن آموزش کے پلیٹ فارموں تک رسائی اور ان سے پیدا ہونے والے مواقع کا جائزہ لیاا۔ انھوں نے مختلف اپلی کیشنز کے استعمال کی مدد سے آن لائن آموزش کو مزید تجرباتی بنانے کی ضرورت پر زور دیا اور یہ ان کے تحقیقی ماحصل پر مبنی تھا۔ انکور سوسائٹی فار الٹرنیٹوز ان ایجوکیشن نے تحقیقی پرزینٹنشن دیے اور اپنے کام کرنے کے فلسفے کی وضاحت کی۔ انکور کی ٹیم میں سے شرمیلا بھگت، یجوویندر ناگر اور ریشیکا نے اپنے کام بھی ساجھا کیے جو بچوں کو تنقیدی انداز میں سوچنے اور غور وفکر کرنے پرآمادہ کرتے ہیں اور بچو ں کو خودمختار بنانے کے لیے تعلیم ایک آلہ ہے اس سے متعلق اپنے کام لوگوں کے سامنے پیش کیے۔ بچوں میں اعتمادکی تعمیر کے لیے اور انھیں اپنی سماجی شناخت کو جینے کے لیے ایجوکیشن ایک آلہ ہے۔ اسی نکتے پر زور دیا گیا۔
سماجی و معاشی طورپر پسماندہ طبقوں میں انکور سوسائٹی کام کرتی ہے تاکہ بچے مسائل کے باوجود اپنی ذات کی شناخت کرسکیں۔بچے اپنی برادری کی کہانیاں لکھتے ہیں۔ انھیں مختلف میڈیم میں بیان کرتے ہیں اور خودمختاری کا احساس کرتے ہیں۔جہاں وہ رہتے ہیں اسے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں نہ کہ شرم و ندامت سے۔انکر ٹیم نے اپنے مختلف تجربات ساجھا کیے کہ وہ سوچنے اور غوروفکر کرنے کی قوت کا سرچشمہ بن رہے ہیں۔ شرکا نے بچوں میں مختلف غوروفکر کو مہمیز کرنے کے لیے انکور کی کوششوں کی بہت تعریف کی ساتھ ہی بچوں کو پلیٹ فارم مہیا کرانے کے لیے وہ کتابیں جن میں بچوں کی کہانیاں ہیں اور بچوں کے ساتھ مختلف آرٹ فارم بروئے کار لائے گئے ہیں تاکہ ساتھ ملک کر کام کیا جاسکے۔ ڈاکٹر رشمی جین نے شعبہ کی جانب سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر کا پروگرا م کی منظوری دینے اور تعاون دینے کے لیے شکریہ ادا کیااور ساتھ ہی اس سیشن میں شامل طلبا، فیکلٹی اراکین کا بھی شکریہ ادا کیا۔
یہ بھی پڑھیں : Mohsin Dehlvi یونانی پیتھی کو میڈیکل ٹورزم کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں: حکیم محسن دہلوی