جامعہ ملیہ اسلامیہ محض ایک تعلیمی ادارہ ہی نہیں بلکہ ایک تحریک، ایک ادبی و تہذیبی گہوارہ اور گنگا جمنی کلچر کا سفیر بھی ہے۔
اس ادارے کا قیام جنگِ آزادی کے عظیم رہنماؤں کے خونِ جگر سے ہوا ہے۔ آزادی کا سچا جذبہ، روشن خیالی، جمہوری اور سیکولر اقدار اور جدید تقاضوں پر مبنی انسانی اقدار سے ہم آہنگ تعلیمی نظام جامعہ ملیہ اسلامیہ کا وژن اور مشن رہا ہے۔
ان خیالات کا اظہار جامعہ کی 101ویں یومِ تاسیس کے موقع پر منعقدہ تقریبِ مشاعرہ میں وائس چانسلر پروفیسر نجمہ اختر نے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ مشاعرے کے صدارتی کلمات میں مشہور ادبی و ثقافتی تنظیم جشنِ بہار ٹرسٹ کی روحِ رواں کامنا پرساد نے کہا کہ مشاعرہ اپنے آپ میں ایک منظم تہذیبی ادارہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں:جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیکل کالج قائم کیا جائے: کنور دانش
نشست و برخاست، گفت و شنید، شعر خوانی، داد و تحسین، شعرا اور سامعین کے درمیان ادبی و تخلیقی رابطہ، زبان و بیان اور پیش کش جیسے عناصر مشاعرے کے وہ مظاہر ہیں جن سے ایک مہذب اور شائستہ معاشرہ وجود پذیر ہوتا ہے۔
ہندی کے مشہور فکشن نگار اور ڈرامہ نگار پروفیسر اصغر وجاہت نے بحیثیت مہمانِ خصوصی اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ شاعری جینا سکھاتی ہے اور زندگی کا حوصلہ بخشتی ہے۔
غالب نے یوں ہی نہیں کہا کہ
"تاب لائے ہی بنے گی غالب
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز"
انہوں نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ تحریکِ آزادی اور گنگا جمنی تہذیب کی پیداوار ہے۔