ETV Bharat / state

دہلی تشدد: 'اندھا دھند گرفتاریوں' کے خلاف جمعیت علمائے ہند کی عرضی پر سماعت

جمعیت علمائے ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا محمود مدنی کی عرضی پر سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ گرفتاری کے وقت ڈی کے باسو بنام ویسٹ بنگال گورنمنٹ میں طے کردہ سپریم کورٹ کی گائیڈ لائن کی پابندی کی جائے، جو گرفتار ہوئے ہیں وہ مستقل ضمانت کے لیے ذیلی عدالت میں درخواست دے سکتے ہیں۔

jamaat e ulema hind reaches court to draw the attention to series of arrest being done by delhi police
دہلی تشدد معاملے میں ‘اندھادھند گرفتاریوں‘ کے خلاف جمعیۃ علماء ہند عدالت پہنچی
author img

By

Published : Apr 27, 2020, 11:58 PM IST

لاک ڈاؤن کے باوجود دہلی تشدد کی انکوائری کی آڑ میں پولیس کے ذریعہ مسلم اقلیتوں کی مسلسل گرفتاری پر روک لگانے سے متعلق جمعیت علمائے ہند کی عرضی پر آج سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ جو گرفتاری ہوئی ہے یا آئندہ جو بھی ہوگی، اس کو انجام دیتے وقت ڈی کے باسو بنام حکومت ویسٹ بنگال سنہ 1977 مقدمے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ طے کردہ گائیڈ لائن کی مکمل پابندی کی جائے۔

جسٹس سدھارتھ مریدول، جسٹس سنگھ کی دو رکنی بنچ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ ذیلی عدالت میں ریگولر بیل (مستقل ضمانت) کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت کے لیے 24 جون کی تاریخ طے کی ہے۔

jamaat e ulema hind reaches court to draw the attention to series of arrest being done by delhi police
دہلی تشدد معاملے میں ‘اندھادھند گرفتاریوں‘ کے خلاف جمعیۃ علماء ہند عدالت پہنچی


واضح ہو کہ جمعیۃ علماء ہند نے اپنے وکیل انوپ جارج چودھری، جون چودھری، ایڈوکیٹ نیاز فاروقی، ایڈوکیٹ طیب کے تعاون سے ہائی کورٹ میں 22 اپریل 2020 کو ایک عرضی دائری کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت جبکہ پورا ملک کورونا وائرس کی ہلاکت خیز بیماری سے جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسے میں دہلی پولیس، ماہ فروری میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کی آڑ میں گلی کوچے سے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج رہی ہے۔

عدالت میں جمعیۃ علماء ہند نے ایسے 52 لوگوں کے نام پیش کیے ہیں، جن کو اس درمیان گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار شدگان کا تعلق جعفرآباد، مصطفی آباد، برہم پوری، چوہان بانگر، موہن پوری، عثمان پور، چاند باغ سے ہے۔ دو طالب علم میران حیدر اور صفور ازرگان جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جبکہ قابل احترام سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے تمام ریاستوں کو ہدایت دی ہے کہ پیرول، بیل اور فرلو کے ذریعہ قیدیوں کو رہا کیا جائے اور جیلوں کی بھیڑ کم کی جائے۔ اس طرح سے دہلی پولیس نے سپریم کورٹ کی ہدایتوں کے بنیادی مقاصد کو پامال کیا اور جیلوں کے خالی کرنے کے بجائے اسے بھرنے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی دہلی حکومت کے ذریعہ قیدیوں سے متعلق ضابطے میں ایمرجنسی پیرول کے اضافہ کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔


جمعیۃ علماء ہند نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ یہ افسوسناک ہے کہ ایک سیکولر سماج کی پولیس کا کردار اس قدر تعصب، تفریق اور فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ حالاںکہ ایک لاء انفورسمنٹ ایجنسی کے طور پر اس کا کام انسانیت کی خدمت، شہریوں کے جان ومال کی حفاظت اور آئینی حقوق، آزادی ومساوات کا بلاتفریق تحفظ ہونا چاہیے۔ لیکن صد افسوس دہلی تشدد میں خود متاثر ہوئے افراد بالخصوص اقلیتوں کے خلاف دہلی پولیس کا کردارغیر انسانی اور غیر منصفانہ رہا ہے۔ لوگوں کی گرفتاری میں کسی بھی قانون اور ضابطے کی کوئی پروا نہیں کی گئی۔ ایسے موقع پر ہائی کورٹ نے پولیس کو ڈی کے باسو بنام اسٹیٹ آف ویسٹ بنگال 1977(1)SCC416 مقدمے میں سپریم کورٹ کے گائیڈ لائن کی پابندی کی ہدایت دی ہے جو اصلاح کی طرف بہترین قدم ہے۔ اس گائیڈ لائن میں کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے وقت گیارہ ہدایات دی گئی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کو گرفتار کرنے یا قید کرنے کے وقت پولیس عملہ کی وردی پر صاف صاف لفظوں میں ناموں اور عہدے کا بلہ لگا ہونا چاہیے اور مذکورہ پولیس عملے کی تمام تفصیلات ایک رجسٹر میں ریکارڈ ہونی چاہیے۔ پولیس عملہ کے پاس گرفتاری کا میمو ہونا چاہیے جس پر ایک گواہ کا دستخط بھی ہو جو گرفتار شدہ کے خاندان کا ممبر یا علاقے کا معزز شخص ہو، میمو پر گرفتار شدہ کا بھی دستخط ہو اور تاریخ اور وقت درج ہو۔ جس شخص کو گرفتار کیا جا رہا ہے یا پولیس لاک اپ میں رکھا جا رہا ہے، اس کے سلسلے میں اس کے کسی رشتہ دار، دوست یا خیرخواہ کو جلد ازجلد مطلع کیا جائے۔ گرفتار شدہ کے قید کی جگہ، گرفتاری کا وقت نوٹیفائیڈ کیا جائے۔ جبکہ اس کے رشتہ دار یا دوست ضلع سے باہر رہتے ہوں، ضلع میں موجود لیگل ایڈ آرگنائزیشن کے ذریعہ سے یا اس علاقہ میں موجود پولس اسٹیشن کے ذریعہ سے گرفتاری کے آٹھ سے بارہ گھنٹے کے اندر رشتہ داراوں کو مطلع کیا جائے۔

گرفتار شدہ شخص کو اس کا یہ حق معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنی گرفتاری کی اطلاع کسی شخص کو دے سکتا ہے۔ گرفتار شدہ شخص کی ہر 48 گھنٹے پر سرکاری طور سے منظور شدہ ٹرینڈ ڈاکٹر کے ذریعہ چانچ کرائی جائے۔ گرفتار شدہ شخص کو اپنے وکیل سے ملنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ ضلع اور صوبہ کے مرکز میں ایک پولیس کنٹرول روم میں قیدی کی گرفتاری اور نوٹس بورڈ پر اس کا نام درج ہونا چاہیے۔ اگر ان چیزوں پر عمل نہیں ہوتا ہے تو ذمہ دار شخص کے خلاف دفتری کارروائی کی جائے گی۔

لاک ڈاؤن کے باوجود دہلی تشدد کی انکوائری کی آڑ میں پولیس کے ذریعہ مسلم اقلیتوں کی مسلسل گرفتاری پر روک لگانے سے متعلق جمعیت علمائے ہند کی عرضی پر آج سماعت کرتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کو ہدایت دی ہے کہ جو گرفتاری ہوئی ہے یا آئندہ جو بھی ہوگی، اس کو انجام دیتے وقت ڈی کے باسو بنام حکومت ویسٹ بنگال سنہ 1977 مقدمے میں سپریم کورٹ کے ذریعہ طے کردہ گائیڈ لائن کی مکمل پابندی کی جائے۔

جسٹس سدھارتھ مریدول، جسٹس سنگھ کی دو رکنی بنچ نے اپنے حکم میں یہ بھی کہا ہے کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، وہ ذیلی عدالت میں ریگولر بیل (مستقل ضمانت) کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ عدالت نے آئندہ سماعت کے لیے 24 جون کی تاریخ طے کی ہے۔

jamaat e ulema hind reaches court to draw the attention to series of arrest being done by delhi police
دہلی تشدد معاملے میں ‘اندھادھند گرفتاریوں‘ کے خلاف جمعیۃ علماء ہند عدالت پہنچی


واضح ہو کہ جمعیۃ علماء ہند نے اپنے وکیل انوپ جارج چودھری، جون چودھری، ایڈوکیٹ نیاز فاروقی، ایڈوکیٹ طیب کے تعاون سے ہائی کورٹ میں 22 اپریل 2020 کو ایک عرضی دائری کی تھی جس میں کہا گیا ہے کہ اس وقت جبکہ پورا ملک کورونا وائرس کی ہلاکت خیز بیماری سے جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسے میں دہلی پولیس، ماہ فروری میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کی آڑ میں گلی کوچے سے مسلم نوجوانوں کو گرفتار کرکے جیل بھیج رہی ہے۔

عدالت میں جمعیۃ علماء ہند نے ایسے 52 لوگوں کے نام پیش کیے ہیں، جن کو اس درمیان گرفتار کیا گیا ہے۔ گرفتار شدگان کا تعلق جعفرآباد، مصطفی آباد، برہم پوری، چوہان بانگر، موہن پوری، عثمان پور، چاند باغ سے ہے۔ دو طالب علم میران حیدر اور صفور ازرگان جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ سب کچھ ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جبکہ قابل احترام سپریم کورٹ نے سو موٹو ایکشن لیتے ہوئے تمام ریاستوں کو ہدایت دی ہے کہ پیرول، بیل اور فرلو کے ذریعہ قیدیوں کو رہا کیا جائے اور جیلوں کی بھیڑ کم کی جائے۔ اس طرح سے دہلی پولیس نے سپریم کورٹ کی ہدایتوں کے بنیادی مقاصد کو پامال کیا اور جیلوں کے خالی کرنے کے بجائے اسے بھرنے کی کوشش کی۔ ساتھ ہی دہلی حکومت کے ذریعہ قیدیوں سے متعلق ضابطے میں ایمرجنسی پیرول کے اضافہ کو بھی خاطر میں نہیں لایا گیا۔


جمعیۃ علماء ہند نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ یہ افسوسناک ہے کہ ایک سیکولر سماج کی پولیس کا کردار اس قدر تعصب، تفریق اور فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ حالاںکہ ایک لاء انفورسمنٹ ایجنسی کے طور پر اس کا کام انسانیت کی خدمت، شہریوں کے جان ومال کی حفاظت اور آئینی حقوق، آزادی ومساوات کا بلاتفریق تحفظ ہونا چاہیے۔ لیکن صد افسوس دہلی تشدد میں خود متاثر ہوئے افراد بالخصوص اقلیتوں کے خلاف دہلی پولیس کا کردارغیر انسانی اور غیر منصفانہ رہا ہے۔ لوگوں کی گرفتاری میں کسی بھی قانون اور ضابطے کی کوئی پروا نہیں کی گئی۔ ایسے موقع پر ہائی کورٹ نے پولیس کو ڈی کے باسو بنام اسٹیٹ آف ویسٹ بنگال 1977(1)SCC416 مقدمے میں سپریم کورٹ کے گائیڈ لائن کی پابندی کی ہدایت دی ہے جو اصلاح کی طرف بہترین قدم ہے۔ اس گائیڈ لائن میں کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے وقت گیارہ ہدایات دی گئی ہیں، جن کا خلاصہ یہ ہے کہ کسی شخص کو گرفتار کرنے یا قید کرنے کے وقت پولیس عملہ کی وردی پر صاف صاف لفظوں میں ناموں اور عہدے کا بلہ لگا ہونا چاہیے اور مذکورہ پولیس عملے کی تمام تفصیلات ایک رجسٹر میں ریکارڈ ہونی چاہیے۔ پولیس عملہ کے پاس گرفتاری کا میمو ہونا چاہیے جس پر ایک گواہ کا دستخط بھی ہو جو گرفتار شدہ کے خاندان کا ممبر یا علاقے کا معزز شخص ہو، میمو پر گرفتار شدہ کا بھی دستخط ہو اور تاریخ اور وقت درج ہو۔ جس شخص کو گرفتار کیا جا رہا ہے یا پولیس لاک اپ میں رکھا جا رہا ہے، اس کے سلسلے میں اس کے کسی رشتہ دار، دوست یا خیرخواہ کو جلد ازجلد مطلع کیا جائے۔ گرفتار شدہ کے قید کی جگہ، گرفتاری کا وقت نوٹیفائیڈ کیا جائے۔ جبکہ اس کے رشتہ دار یا دوست ضلع سے باہر رہتے ہوں، ضلع میں موجود لیگل ایڈ آرگنائزیشن کے ذریعہ سے یا اس علاقہ میں موجود پولس اسٹیشن کے ذریعہ سے گرفتاری کے آٹھ سے بارہ گھنٹے کے اندر رشتہ داراوں کو مطلع کیا جائے۔

گرفتار شدہ شخص کو اس کا یہ حق معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنی گرفتاری کی اطلاع کسی شخص کو دے سکتا ہے۔ گرفتار شدہ شخص کی ہر 48 گھنٹے پر سرکاری طور سے منظور شدہ ٹرینڈ ڈاکٹر کے ذریعہ چانچ کرائی جائے۔ گرفتار شدہ شخص کو اپنے وکیل سے ملنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔ ضلع اور صوبہ کے مرکز میں ایک پولیس کنٹرول روم میں قیدی کی گرفتاری اور نوٹس بورڈ پر اس کا نام درج ہونا چاہیے۔ اگر ان چیزوں پر عمل نہیں ہوتا ہے تو ذمہ دار شخص کے خلاف دفتری کارروائی کی جائے گی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.