نئی دہلی: قومی دارالحکومت دہلی میں منعقدہ کانفرنس کو خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر پروفیسر محمد سلیم انجینیئر نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند بہار میں ذات پر مبنی مردم شماری کی رپورٹ کا خیر مقدم کرتی ہے۔ سماج میں حاشیے پر پڑے ہوئے۔محروم طبقات کے بارے میں تازہ ترین اعداد و شمار حاصل کرنے کے لیے ملک گیر پیمانے پر مردم شماری کی ضروری ہے کیونکہ تعلیمی اداروں اور سرکاری ملازمتوں میں ذات کی بنیاد پر ریزرویشن فراہم کیا جاتا ہے۔
یہ مردم شماری پالیسی سازوں کو بہتر پالیسیاں وضع کرنے اور زیادہ درست فلاحی پروگرام بنانے میں معاون ہوں گی، حالانکہ ماضی میں درج فہرست ذات و درج فہرست قبائل مذاہب اور لسانی پروفائلز کے لیے مردم شماری کی جا چکی ہے لیکن مختلف ذاتوں پر مبنی قومی سطح پر تازہ ترین مردم شماری کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے۔
ذات کے لحاظ سے آخری مرہم شماری 1931 میں ہوئی تھی اس کے بعد سماجی و اقتصادی اور ذات کی مردم شماری 2011 میں کی گئی تھی تاہم حکومت کی جانب سے اس کے نتائج جاری نہیں کیے گئے، جبکہ ائین ہند کا ارٹیکل 340 سماجی و تعلیمی طور پر پسماندہ طبقات کے حالات کی چھان بین کرنے اور حکومتوں سے سفارشات کے لیے ایک کمیشن کی تقرری کی ترغیب دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ذات پر مردم شماری سے کچھ خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس سے ذات پات کی بنیاد پر سیاسی تحریک کو فروغ ملے گا جو معاشرے میں تقسیم کا باعث بنے گی لیکن جماعت کو لگتا ہے کہ یہ خدشات درست نہیں ہے۔ انصاف اور مساوات کے لیے اس طرح کی مردم شماری قومی سطح پر کیا جانا ضروری ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Delhi Conversion Case کیا وزیرآباد میں جبراً تبدیلیٔ مذہب کا معاملہ سامنے آیا ہے؟
بہار کاسٹ سروے کے نتائج سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ابادی کے اعداد و شمار اور پیش کردہ موجودہ ریزرویشن کس طرح غیر متوازن ہیں اس سروے میں بتایا گیا ہے کہ دیگر پسماندہ طبقات اور انتہائی پسماندہ طبقات ریاست کی کل ابادی کا 63 فیصد ہے یعنی او بی سی 27 فیصد اور ای بی سی 36 فیصد ہیں، سروے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ یادو ریاست کی کل ابادی کا 14. 27 فیصد ہیں، جبکہ دلت 19.65 فیصد ہیں درج فہرست قبائل 1.68 فیصد، جبکہ غیر محفوظ کل ابادی کا 15.52 فیصد ہیں، جماعت اسلامی ہند کا خیال ہے کہ ریزرویشن ہر طبقے کے لیے ابادی کے تناسب سے ہونا چاہیے۔