تھیلیسیمیا ایک جینیاتی خون کی خرابی کا مرض ہے، جس میں جسم میں ہیموگلوبین معمول سے کم ہوتا ہے۔ یہ ڈی این اے میں میوٹیشن کی وجہ سے ہوتا ہے، جس کا اثر جسم میں آکسیجن پہنچانے والے ہیموگلوبن پر مشتمل خلیات پر پڑتا ہے۔ تھیلیسیمیا کا میوٹیشن ایک نسل سے اگلی نسل میں جاتا ہے۔ دونوں بچے تھیلیسیمیا میجر میں متاثرتھے، جو سنگین صورت حال ہے، اس میں مریض کو باقاعدگی سے خون چڑھانا پڑتا ہے۔
اپولو کی جانب سے جمعرات کو جاری ایک ریلیز میں کہا گیا ہے کہ سات سالہ سسوتی، جب پیدا ہوئی تبھی اس میں تھیلیسیمیا میجر کا پتہ لگا تھا اور اس کے بعد بچی کا علاج کیا گیا، کئی بار اسے خون چڑھایا گیا اور ادویات دی گئیں۔ کچھ وقت بعد بچی کے بعد جب اس کا بھائی پیدا ہوا، تو کچھ ہی ہفتے بعد پتہ چلا کہ وہ بھی تھیلیسیمیا میں مبتلا ہے۔
مغربی بنگال کے رہنے والے سسوتی اور ارجت کے والدین اسے لے کر انتہائی مایوس ہوگئے کیونکہ ان کی اقتصادی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ دونوں بچوں کو باقاعدگی سے خون چڑھانا پڑتا تھا، اس کے علاوہ ہر بار خون چڑھانے کے بعد جمع ہو گئے اضافی آئرن نکالنے کے لئے باقاعدہ دوائیں بھی دینی پڑتی تھیں۔
والدین بچوں کو اپولو لے کر آئے جہاں دونوں بچوں کے لئے بون میرو ٹرانسپلانٹ کا مشورہ دیا گیا۔ اپولو کے ڈاکٹروں کو دونوں بچوں کے لئے ایک سے زیادہ ایچ ایل اے (10/10) ایٹجن میچڈ ڈونر مل گیا لیکن بہت مہنگا کام تھا اور اس کے بعد فنڈ ریزنگ ای ایس آئی اور کو-آپریٹو تنظیموں کے ذریعہ پیسہ جمع کرنے میں ان کی مدد کی گئی۔
ڈاکٹر گورو کھاریا (سینئر کنسلٹینٹ، بون میرو ٹرانسپلانٹ اینڈ سیلولر تھراپی) نے بتایا، ”جب سسوتی اور ارجت کو اپولو لایا گیا تو دونوں بچے سپورٹو کیئر پر تھے۔ انہیں باقاعدگی سے خون چڑھانا پڑتا تھا، جس کی وجہ سے خاندان پر جذباتی اور اقتصادی دباؤ ہو گیا تھا۔ مناسب مشاورت کے بعد بچوں کا بون میرو ٹرانسپلانٹ کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ بچوں کے علاج کا یہی واحد طریقہ تھا۔ مختلف تنظیموں کے تعاون سے پیسہ جمع کرنے میں والدین کی مدد کی گئی جس کے بعد سسوتی کا بی ایم ٹی کیا گیا۔ عمل مشکل تھا، لیکن بچینے بہادری کے ساتھ اس جنگ کو جیت لیا۔ ٹرانسپلانٹ کے پانچ ماہ بعد بچی ب ٹھیک ہے۔ اس کے بعد اس کے بھائی کا بھی کامیاب بی ایم ٹی کیا گیا اور 17 دن کے بعد اب وہ بھی ٹھیک ہو رہا ہے۔“
عام طور پر بون میرو ٹرانسپلانٹ میں بھائی یا بہن ہی ڈونر ہوتے ہیں، لیکن اس معاملے میں دونوں ہی بچے بیماری میں مبتلا تھے، لہذا بیرونی ڈونر کی ضرورت تھی اور ایک غیر متعلق رضاکارانہ ڈونر مل گیا۔ اگر ایسا نہ ہوسکے تو خاندان میں سے 50 فیصد جینیاتی آئنڈیٹکل ڈونر پر غور کیا جاتا ہے۔