چیف جسٹس شرد اروند بوبڑے ، جسٹس اے ایس بوپنا اور جسٹس ہریشیکیش رائے پر مشتمل ڈویژن بنچ نے درخواست گزار کی جانب سے پیش وکیل اشون ویشیے کی دلائل سننے کے بعد درخواست گزار سے کہا کہ وہ اپنا میمورنڈم حکومت کو پیش کریں۔بینچ نے مرکز سے کہا کہ وہ اس عرضی کو نمائندگی کے طورپر لے۔
سماعت کے آغاز پر ، وکیل نے دلیل دی کہ انڈیا کا نام یونانی لفظ 'انڈیکا' سے نکلا ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار یہاں کیوں آئے ہیں؟ آئین میں ملک کا نام بھارت ہی ہے۔
جسٹس بوبڑے نے کہا 'یہ ہمارے آئین کے شروع میں ہی لکھا گیا ہے ، 'انڈیا دیٹ از بھارت ‘ (انڈیا جو بھارت ہے)۔' آپ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ ' درخواست گزار کے وکیل نے دلیل دی کہ بھارت اور بھارت ماتا کی جئے صدیوں سے بولی جارہی ہے۔
عدالت کا منفی رخ دیکھ کر وکیل نے کہا کہ' درخواست گزار کو اس معاملے سے متعلق افسر کے سامنے نمائندگی کے طورپر رکھنے اجازت دی جائے۔اس پر عدالت نے کہا'متعلقہ افسر کے ذریعہ اس عرضی کو نمائندگی کے طورپر دیکھا جانا چاہیے'۔
عرضی گزار نے لفظ 'انڈیا ' کو استعمار اور غلامی کی علامت قرار دیتے ہوئے آئین کے آرٹیکل ایک میں ترمیم کرنے کی مرکز کو ہدایت دینے کی اپیل کی تھی۔ درخواست گزار نے یہ درخواست ایڈووکیٹ راج کیشور چودھری کے توسط سے دائر کی ہے۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ انڈیا کی بجائے بھارت نام رکھنے سے ملک میں قومی احساس پیدا ہوگا۔ درخواست گزار نے اپنی درخواست میں ، 15 نومبر 1948 کے آئین کے مسودے کا بھی ذکر کیا ، جس میں ایم اننتشینم آئینگر اور سیٹھ گووند داس نے 'ہندوستان' کی جگہ آئین کے مسودے کے آرٹیکل ون پر بحث کرتے ہوئے 'بھارت،ہندوستان اور بھارت ورش ' ناموں کو اپنانے کی وکالت کی تھی۔