ETV Bharat / state

شاہین باغ: نوزائیدہ بچی کی موت پر سپریم کورٹ برہم - undefined

سپریم کورٹ نے دہلی کے شاہین باغ علاقے میں سی اے اے کے خلاف جاری احتجاجی مظاہرے کے دوران چار ماہ کی بچی کی موت کے معاملے پر سخت رخ اختیار کرتے ہوئے مرکزی اور دہلی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

How can 4-month-old go to protest at Shaheen Bagh: Supreme Court
شاہین باغ احتجاجی مظاہرہ میں نوزائدہ بچی کی موت پر سپریم کورٹ برہم
author img

By

Published : Feb 10, 2020, 3:49 PM IST

Updated : Feb 29, 2020, 9:14 PM IST

دوسری جانب، مظاہرین کو شاہین باغ سے ہٹانے کے معاملے میں بھی دو دیگر عرضیوں پر دوسری بینچ نے مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے اور ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے۔

چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی بینچ نے قومی بہادری ایوارڈ سے نوازی گئی لڑکی جین سداورتے کے خط کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی سماعت کی اور احتجاجی مظاہرے میں چار ماہ کی بچی کی جان جانے پر تلخ تبصرہ کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا چار ماہ کی بچی مظاہرے میں حصہ لینے گئی تھی۔ مرکز کی جانب سے پیش سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ 'یہ بے حد بدقسمتی کی بات ہے کہ چار مہینے کی بچی کی موت ہوئی ہے۔'

سماعت کے دوران ہی شاہین باغ کی تین خواتین نے بھی اپنا موقف رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بچوں کو اسکول میں پاکستانی کہا جاتا ہے۔ اس پر، جسٹس بوبڈے نے کہا کہ 'ہم اس وقت این آر سی، این پی آر اور سی اے اے کے سلسلے میں یا کسی بچے کو پاکستانی کہا گیا، اس موضوع پر سماعت نہیں کررہے ہیں۔'

خواتین کی جانب سے غیر ضروری بحث کئے جانے پر جسٹس بوبڈے نے کہا کہ 'ہم ممتا کا احترام کرتے ہیں۔ ہم کسی کی آواز نہیں دبا رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ میں بے وجہ کی بحث نہیں کریں گے۔'

انہوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کے سامنے یہ موضوع نہیں ہے کہ کسی بچے کو اسکول میں پاکستانی کہا گیا یا کچھ اور، یہ نوزائیدہ بچی کی موت کا بے حد حساس معاملہ ہے اور وہ صرف اسی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔'

اس کے بعد عدالت نے مرکز اور دہلی حکومت کو نوٹس جاری کر کے چار ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔

اس سے پہلے ایک دیگر بینچ نے شاہین باغ میں جاری احتجاجی مظاہرے کو ختم کرنے کے سلسلے میں فوری طور پر کوئی ہدایت جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے مرکز اور دہلی حکومت کو پیر کو نوٹس جاری کیا۔

عرضی گزاروں کے وکیل امت ساہنی اور بی جے پی رہنما نند کشور گرگ کے وکیلوں نے جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بینچ کو احتجاجی مظاہروں سے عوام کو ہونے والی پریشانیوں سے مطلع کرایا۔

عرضی گزاروں کے وکیل نے عدالت سے مظاہرین کو وہاں سے ہٹانے کے لیے کوئی حکم یا ہدایت دینے کی اپیل کی، جس پر بینچ نے کہا کہ وہ فی الحال کوئی حکم جاری نہیں کررہی ہے اور ایک ہفتے انتظار کرلیں۔

عدالت نے کہا کہ وہ پہلے مدعا علیہان کا موقف جاننا چاہتے ہیں اس لیے انہیں نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ اس دوران مظاہرین کی جانب سے ایک وکیل نے مظاہرہ جاری رکھنے کے حق کا ذکر کیا جس پر جسٹس کول نے کہا کہ 'عام مقامات پر اس قسم کے دھرنے مظاہرے کرنا مناسب نہیں ہے۔'

انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی دھرنا، مظاہرے کرنے کے اس کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا پھر بھی اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ دھرنا، مظاہرے سے عام لوگوں کو کسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہو۔ دھرنا مظاہرہ ایک طے جگہ پر ہی کیا جانا چاہئے۔

عدالت نے معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 17 فروری کی تاریخ مقرر کی ہے اور اس دوران مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کرکے انہیں اس دن تک جواب دینے کی ہدایت دی ہے۔

واضح رہے کہ شاہین باغ میں پچھلے تقریباً دو مہینے سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ جاری ہے جس کے سلسلے میں نوئیڈا کالندی کنج کا راستہ بند پڑا ہے اور مسافروں کو ہر روز بھاری دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دوسری جانب، مظاہرین کو شاہین باغ سے ہٹانے کے معاملے میں بھی دو دیگر عرضیوں پر دوسری بینچ نے مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے اور ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے۔

چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی بینچ نے قومی بہادری ایوارڈ سے نوازی گئی لڑکی جین سداورتے کے خط کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی سماعت کی اور احتجاجی مظاہرے میں چار ماہ کی بچی کی جان جانے پر تلخ تبصرہ کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا چار ماہ کی بچی مظاہرے میں حصہ لینے گئی تھی۔ مرکز کی جانب سے پیش سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ 'یہ بے حد بدقسمتی کی بات ہے کہ چار مہینے کی بچی کی موت ہوئی ہے۔'

سماعت کے دوران ہی شاہین باغ کی تین خواتین نے بھی اپنا موقف رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بچوں کو اسکول میں پاکستانی کہا جاتا ہے۔ اس پر، جسٹس بوبڈے نے کہا کہ 'ہم اس وقت این آر سی، این پی آر اور سی اے اے کے سلسلے میں یا کسی بچے کو پاکستانی کہا گیا، اس موضوع پر سماعت نہیں کررہے ہیں۔'

خواتین کی جانب سے غیر ضروری بحث کئے جانے پر جسٹس بوبڈے نے کہا کہ 'ہم ممتا کا احترام کرتے ہیں۔ ہم کسی کی آواز نہیں دبا رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ میں بے وجہ کی بحث نہیں کریں گے۔'

انہوں نے کہا کہ 'سپریم کورٹ کے سامنے یہ موضوع نہیں ہے کہ کسی بچے کو اسکول میں پاکستانی کہا گیا یا کچھ اور، یہ نوزائیدہ بچی کی موت کا بے حد حساس معاملہ ہے اور وہ صرف اسی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔'

اس کے بعد عدالت نے مرکز اور دہلی حکومت کو نوٹس جاری کر کے چار ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔

اس سے پہلے ایک دیگر بینچ نے شاہین باغ میں جاری احتجاجی مظاہرے کو ختم کرنے کے سلسلے میں فوری طور پر کوئی ہدایت جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے مرکز اور دہلی حکومت کو پیر کو نوٹس جاری کیا۔

عرضی گزاروں کے وکیل امت ساہنی اور بی جے پی رہنما نند کشور گرگ کے وکیلوں نے جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بینچ کو احتجاجی مظاہروں سے عوام کو ہونے والی پریشانیوں سے مطلع کرایا۔

عرضی گزاروں کے وکیل نے عدالت سے مظاہرین کو وہاں سے ہٹانے کے لیے کوئی حکم یا ہدایت دینے کی اپیل کی، جس پر بینچ نے کہا کہ وہ فی الحال کوئی حکم جاری نہیں کررہی ہے اور ایک ہفتے انتظار کرلیں۔

عدالت نے کہا کہ وہ پہلے مدعا علیہان کا موقف جاننا چاہتے ہیں اس لیے انہیں نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔ اس دوران مظاہرین کی جانب سے ایک وکیل نے مظاہرہ جاری رکھنے کے حق کا ذکر کیا جس پر جسٹس کول نے کہا کہ 'عام مقامات پر اس قسم کے دھرنے مظاہرے کرنا مناسب نہیں ہے۔'

انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی دھرنا، مظاہرے کرنے کے اس کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا پھر بھی اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ دھرنا، مظاہرے سے عام لوگوں کو کسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہو۔ دھرنا مظاہرہ ایک طے جگہ پر ہی کیا جانا چاہئے۔

عدالت نے معاملے کی اگلی سماعت کے لیے 17 فروری کی تاریخ مقرر کی ہے اور اس دوران مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کرکے انہیں اس دن تک جواب دینے کی ہدایت دی ہے۔

واضح رہے کہ شاہین باغ میں پچھلے تقریباً دو مہینے سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ جاری ہے جس کے سلسلے میں نوئیڈا کالندی کنج کا راستہ بند پڑا ہے اور مسافروں کو ہر روز بھاری دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

Intro:Body:



NationalPosted at: Feb 10 2020 2:53PM

شاہین باغ میں نوزائدہ بچے کی موت کا معاملہ:مرکز اور دہلی حکومت کو سپریم کورٹ کا نوٹس

نئی دہلی،10فروری(یواین آئی)سپریم کورٹ نے دہلی کے شاہین باغ علاقے میں جاری احتجاجی مظاہرے کے دوران چار ماہ کی ایک نوزائدہ بچے کی موت کے معالے میں سخت رخ اختیار کرتے ہوئے پیر کو مرکز اور دہلی حکومت سے جواب طلب کیا۔

دوسری جانب،مظاہرین کو شاہین باغ سے ہٹانے کے معاملے میں بھی دودیگر عرضیوں پر دوسری بینچ نے مرکز،دہلی حکومت اوردہلی پولیس کو نوٹس جاری کئے ہیں اور ایک ہفتے میں جواب مانگا ہے۔

چیف جسٹس شرد اروند بوبڑے،جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی بینچ نے قومی بہادری ایوارڈ سے نوازی گئی لڑکی جین سداورتے کے خط کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی سماعت کی اور احتجاجی مظاہرے میں چارماہ کی نوزائیدہ بچی کی جان جانے پر تلخ تبصرہ کیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا چار ماہ کی بچی مظاہرے میں حصہ لینے گئی تھی۔مرکز کی جانب سے پیش سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نےکہا کہ یہ بےحد بدقسمتی کی بات ہے کہ چار مہینے کی بچی کی موت ہوئی ہے۔

سماعت کے دوران ہی،شاہین باغ کی تین خواتین نے بھی اپنا موقف رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ان کے بچوں کو اسکول میں پاکستانی کہا جاتا ہے۔اس پر،جسٹس بوبڑے نے کہا،’’ہم اس وقت این آر سی،این پی اے،سی اےاے کے سلسلے میں یا کسی بچے کو پاکستانی کہاگیا،اس موضوع پر سماعت نہیں کررہے ہیں۔‘‘

خواتین کی جانب سے غیر ضروری بحث کئے جانے پر جسٹس بوبڑے نے کہا،’’ہم مامتا کا احترام کرتےہیں ۔ہم کسی کی آواز نہیں دبا رہے ہیں،لیکن سپریم کورٹ میں بے وجہ کی بحث نہیں کریں گے۔‘‘

انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ موضوع نہیں ہے کہ کسی بچے کو اسکول میں پاکستانی کہاگیا یا کچھ اور۔نوزائدہ بچی کی موت کا معاملہ بےحد حساس ہے اور وہ صرف اسی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھےگا۔

اس کے بعد عدالت نے مرکز اور دہلی حکومت کو نوٹس جاری کرکے چار ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ہے۔

اس سے پہلے ایک دیگر بینچ نے شاہین باغ میں جاری احتجاجی مظاہرے کو ختم کرنے کےسلسلے میں فوری طورپر کوئی ہدایت جاری کرنے سے انکار کرتے ہوئے مرکز اور دہلی حکومت کو پیر کو نوٹس جاری کئے۔

عرضی گزاروں-وکیل امت ساہنی اور بی جےپی رہنما نند کشور گرگ کے وکیلوں نے جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف کی بینچ کو احتجاجی مظاہروں سے عوام کو ہونے والی پریشانیوں سے مطلع کرایا۔

عرضی گزاروں کے وکیل نے عدالت سے مظاہرین کو وہاں سے ہٹانے کےلئے کوئی حکم یا ہدایت دینے کی اپیل کی،جس پر بینچ نے کہا کہ وہ فی الحال کوئی حکم جاری نہیں کررہی ہے۔ایک ہفتے اورانتظار کرلیں۔

عدالت نے کہا کہ وہ پہلے مدعا علیہان کا موقف جاننا چاہتے ہیں اس لئے انہیں نوٹس جاری کیاجاتا ہے۔اس دوران مظاہرین کی جانب سے ایک وکیل نے مظاہرہ جاری رکھنے کے حق کا ذکر کیا جس پر جسٹس کول نے کہا کہ عام مقامات پر اس قسم کے دھرنے مظاہرے کرنا مناسب نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو بھی دھرنا،مظاہرے کرنے کے اس کے حق سے محروم نہیں کیا جاسکتا پھر بھی اس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ دھرنا مظاہرے سے عام لوگوں کو کسی طرح کی کوئی پریشانی نہ ہو۔دھرنامظاہرہ ایک طے جگہ پر ہی کیاجاناچاہئے۔

عدالت نے معاملے کی اگلی سماعت کےلئے 17فروری کی تاریخ مقرر کی ہے اور اس دوران مرکزی حکومت،دہلی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کرکے انہیں اس دن تک جواب دینے کی ہدایت دی ہے۔

واضح رہے کہ شاہین باغ میں پچھلے تقریباً دو مہینے سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ جاری ہے جس کےسلسلے میں نوئیڈا کالندی کنج کا راستہ بند پڑا ہے اور مسافروں کو ہر روز بھاری دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


Conclusion:
Last Updated : Feb 29, 2020, 9:14 PM IST

For All Latest Updates

TAGGED:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.