ETV Bharat / state

Independence Movement تحریک آزادی کی تاریخ اردو شعر و ادب کے تذکرے کے بغیر نامکمل: ڈاکٹر نریش

author img

By ETV Bharat Urdu Team

Published : Oct 5, 2023, 9:21 PM IST

زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبانیں ڈائلاگ پیدا کرتی ہیں، تنازعہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اردو وہ زبان ہے جس نے نہ صرف تمام ملک کو متحد کیا ہے بلکہ تحریکِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ History of Independence Movement is incomplete without mention of Urdu poetry and literature: Dr. Naresh

تحریک آزادی کی تاریخ اردو شعر و ادب کے تذکرے کے بغیر نامکمل: ڈاکٹر نریش
تحریک آزادی کی تاریخ اردو شعر و ادب کے تذکرے کے بغیر نامکمل: ڈاکٹر نریش

دہلی:زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبانیں ڈائلاگ پیدا کرتی ہیں، تنازعہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اردو وہ زبان ہے جس نے نہ صرف تمام ملک کو متحد کیا ہے بلکہ تحریکِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام دو روزہ کل ہند سمینار بعنوان ’تحریک آزادی میں اردو ادب کا حصہ‘ کا انعقاد آج نئی دہلی میں ہوا جس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ممتاز دانشور پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبانیں ڈائلاگ پیدا کرتی ہیں، تنازعہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اردو وہ زبان ہے جس نے نہ صرف تمام ملک کو متحد کیا ہے بلکہ تحریکِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

انھوں نے تحریک آزادی کے بہت سارے پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب میں نسائی تحریک کے حوالے سے میں ان دو افراد کو خاص مانتا ہوں، پہلا ڈپٹی نذیر احمد اور دوسرے الطاف حسین حالی۔ اپنی افتتاحی تقریر میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ بھارتیہ پنچ تنتر کا گہرا اثر فرانس کے انقلاب پر پڑا ہے۔ انھوں نے پریم چند کے سوزِ وطن سمیت ایسی تمام کتابوں کا ذکر کیا جنھیں انگریزوں نے ضبط کرلیا تھا۔انھوں نے کہا کہ اردو ادب کے شعرا نے نہ صرف جنگ آزادی کے لیے عوام کو متحرک کیا بلکہ ان میں اخلاقی قوت بھی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ انھوں نے پلاسی کی جنگ سے لے کر ہندوستان کی آزادی تک عوامی جدوجہد کا احاطہ کیا۔

اس موقع پر مہمان خصوصی پروفیسر سیدہ سیدین حمید نے اپنے پر دادا مولانا الطاف حسین حالی اور والد خواجہ غلام السیدین کے حوالے سے تحریک آزادی پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے تحریک آزادی کے دوران اردو ادب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت پانچ خواتین نے ’بھارت ماتا کے پانچ روپ‘ کتاب میں بھارت ماتا کے پانچ مختلف روپوں کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی تھی۔ آزاد ہندوستان کے بچوں کے نام لکھے ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سیاسی آزادی کو انصاف، مساوات اور بھائی چارگی تک پہنچانا آنے والی پیڑھیوں کی ذمہ داری ہے۔

ناگپور سے تشریف لائے خواجہ غلام السیدین ربانی نے کلیدی خطبہ پیش کیا اور آزادی کے تحریک کو کئی زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے 1857 کی تحریک کو ہندوستان کی آزادی کا پہلا انقلاب بتایا۔ انھوں نے مزید کہا کہ صحافت اور ادب آج جس طرح مختلف مانے جانے لگے ہیں اُس دور میں ایسا نہیں تھا۔ اُس وقت جو صحافی تھے وہی ادیب بھی تھے اور اُن کی ہر طرح کی کوشش میں حب الوطنی نمایاں تھی۔ انھوں نے اردو ادب کے کئی حوالے دیے جس میں آزادی کی لڑائی کے مختلف پہلو شامل تھے۔

اس سمینار کے آغاز میں ساہتیہ اکادمی کے اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر ممتاز شاعر چندربھان خیال نے سمینار کے اغراض و مقاصد کو تفصیل سے بیان کیا انھوں نے اپنے ابتدائی خطبے میں تحریک آزادی اور اردو ادب اور صحافت میں سرگرم قلمکاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ذکر کے بغیر تحریک آزادی کی تاریخ نامکمل ہوگی اور نئی نسل کو ان کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے پلاسی کی جنگ سے 1857 کی پہلی جنگ آزادی اور اس کے بعد 1947 تک کے تمام منظرنامے کا اختصار سے جائزہ لیا۔ ساہتیہ اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے سری نواس راؤ نے سبھی مندوبین اور شرکا کا اکادمی کی جانب سے استقبال کیا اور اپنے خیرمقدمی کلمات میں کہا کہ اپنی تاریخ اور وراثت کو جانے بغیر ہم اپنے مستقبل کی تاریخ نہیں لکھ سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: General VK Singh وہ دن دور نہیں جب پی او کے دوبارہ ہندوستان میں ہوگا: جنرل وی کے سنگھ


دوسرے سیشن میں اکادمک اجلاس منعقد ہوئے۔ پہلے اجلاس کی صدارت چنڈی گڑھ سے تشریف لائے اردو کے معروف ادیب ڈاکٹر نریش نے کی اور محمود ملک (بھوپال)، چشمہ فاروقی (دہلی) اور نوشاد منظر (دہلی) نے اپنے مقالات پیش کیے۔ دوسرے اجلاس کی صدارت بنگلور سے تشریف لائے معروف مترجم اور ادیب ماہر منصور نے کی اور قاسم خورشید (پٹنہ)، ابوظہیر ربانی (دہلی) اور شہناز رحمن (علی گڑھ) نے اپنے مقالے پیش کیے۔ افتتاحی اجلاس سے لے کر تیسرے اجلاس کی نظامت ساہتیہ اکادمی کے ایڈیٹر انوپم تیواری نے خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دی۔

دہلی:زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبانیں ڈائلاگ پیدا کرتی ہیں، تنازعہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اردو وہ زبان ہے جس نے نہ صرف تمام ملک کو متحد کیا ہے بلکہ تحریکِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ساہتیہ اکادمی کے زیراہتمام دو روزہ کل ہند سمینار بعنوان ’تحریک آزادی میں اردو ادب کا حصہ‘ کا انعقاد آج نئی دہلی میں ہوا جس کے افتتاحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ممتاز دانشور پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ زبانوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ مذہب کو زبانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ زبانیں ڈائلاگ پیدا کرتی ہیں، تنازعہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ اردو وہ زبان ہے جس نے نہ صرف تمام ملک کو متحد کیا ہے بلکہ تحریکِ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

انھوں نے تحریک آزادی کے بہت سارے پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اردو ادب میں نسائی تحریک کے حوالے سے میں ان دو افراد کو خاص مانتا ہوں، پہلا ڈپٹی نذیر احمد اور دوسرے الطاف حسین حالی۔ اپنی افتتاحی تقریر میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ بھارتیہ پنچ تنتر کا گہرا اثر فرانس کے انقلاب پر پڑا ہے۔ انھوں نے پریم چند کے سوزِ وطن سمیت ایسی تمام کتابوں کا ذکر کیا جنھیں انگریزوں نے ضبط کرلیا تھا۔انھوں نے کہا کہ اردو ادب کے شعرا نے نہ صرف جنگ آزادی کے لیے عوام کو متحرک کیا بلکہ ان میں اخلاقی قوت بھی پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ انھوں نے پلاسی کی جنگ سے لے کر ہندوستان کی آزادی تک عوامی جدوجہد کا احاطہ کیا۔

اس موقع پر مہمان خصوصی پروفیسر سیدہ سیدین حمید نے اپنے پر دادا مولانا الطاف حسین حالی اور والد خواجہ غلام السیدین کے حوالے سے تحریک آزادی پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے تحریک آزادی کے دوران اردو ادب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اُس وقت پانچ خواتین نے ’بھارت ماتا کے پانچ روپ‘ کتاب میں بھارت ماتا کے پانچ مختلف روپوں کو دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ یہ کتاب بہت مقبول ہوئی تھی۔ آزاد ہندوستان کے بچوں کے نام لکھے ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سیاسی آزادی کو انصاف، مساوات اور بھائی چارگی تک پہنچانا آنے والی پیڑھیوں کی ذمہ داری ہے۔

ناگپور سے تشریف لائے خواجہ غلام السیدین ربانی نے کلیدی خطبہ پیش کیا اور آزادی کے تحریک کو کئی زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی۔ انھوں نے 1857 کی تحریک کو ہندوستان کی آزادی کا پہلا انقلاب بتایا۔ انھوں نے مزید کہا کہ صحافت اور ادب آج جس طرح مختلف مانے جانے لگے ہیں اُس دور میں ایسا نہیں تھا۔ اُس وقت جو صحافی تھے وہی ادیب بھی تھے اور اُن کی ہر طرح کی کوشش میں حب الوطنی نمایاں تھی۔ انھوں نے اردو ادب کے کئی حوالے دیے جس میں آزادی کی لڑائی کے مختلف پہلو شامل تھے۔

اس سمینار کے آغاز میں ساہتیہ اکادمی کے اردو مشاورتی بورڈ کے کنوینر ممتاز شاعر چندربھان خیال نے سمینار کے اغراض و مقاصد کو تفصیل سے بیان کیا انھوں نے اپنے ابتدائی خطبے میں تحریک آزادی اور اردو ادب اور صحافت میں سرگرم قلمکاروں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ذکر کے بغیر تحریک آزادی کی تاریخ نامکمل ہوگی اور نئی نسل کو ان کے بارے میں جاننا بہت ضروری ہے۔ انھوں نے پلاسی کی جنگ سے 1857 کی پہلی جنگ آزادی اور اس کے بعد 1947 تک کے تمام منظرنامے کا اختصار سے جائزہ لیا۔ ساہتیہ اکادمی کے سکریٹری ڈاکٹر کے سری نواس راؤ نے سبھی مندوبین اور شرکا کا اکادمی کی جانب سے استقبال کیا اور اپنے خیرمقدمی کلمات میں کہا کہ اپنی تاریخ اور وراثت کو جانے بغیر ہم اپنے مستقبل کی تاریخ نہیں لکھ سکتے۔

یہ بھی پڑھیں: General VK Singh وہ دن دور نہیں جب پی او کے دوبارہ ہندوستان میں ہوگا: جنرل وی کے سنگھ


دوسرے سیشن میں اکادمک اجلاس منعقد ہوئے۔ پہلے اجلاس کی صدارت چنڈی گڑھ سے تشریف لائے اردو کے معروف ادیب ڈاکٹر نریش نے کی اور محمود ملک (بھوپال)، چشمہ فاروقی (دہلی) اور نوشاد منظر (دہلی) نے اپنے مقالات پیش کیے۔ دوسرے اجلاس کی صدارت بنگلور سے تشریف لائے معروف مترجم اور ادیب ماہر منصور نے کی اور قاسم خورشید (پٹنہ)، ابوظہیر ربانی (دہلی) اور شہناز رحمن (علی گڑھ) نے اپنے مقالے پیش کیے۔ افتتاحی اجلاس سے لے کر تیسرے اجلاس کی نظامت ساہتیہ اکادمی کے ایڈیٹر انوپم تیواری نے خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.