ETV Bharat / state

جامعہ تشدد کی تحقیقات سے متعلق درخواست پر سماعت آج - دہلی ہائی کورٹ

دہلی ہائی کورٹ آج جامعہ تشدد معاملے میں تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی درخواستوں پر سماعت کرے گا۔ پہلے کی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ پولیس کو تشدد پر قابو پانے کے لئے جامعہ یونیورسٹی میں داخل ہونا پڑا تھا۔

جامعہ تشدد کی تحقیقات سے متعلق درخواست پر سماعت آج
جامعہ تشدد کی تحقیقات سے متعلق درخواست پر سماعت آج
author img

By

Published : Nov 20, 2020, 10:51 AM IST

دہلی ہائی کورٹ آج جامعہ تشدد معاملے میں تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی درخواستوں پر سماعت کرے گا۔ اس سے قبل کی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ پولیس کو تشدد پر قابو پانے کے لئے جامعہ یونیورسٹی میں داخل ہونا پڑا تھا۔ اس معاملے میں چیف جسٹس ڈی این پٹیل کی سربراہی میں بنچ سماعت کرے گا۔

گزشتہ 6 نومبر کو سماعت کے دوران جب عدالت کو بتایا گیا تھا کہ تشار مہتا ایک اور معاملے میں مصروف ہے، تو درخواست گزار کی جانب سے سینئر وکیل کالن گونزالویس نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں اے ایس جی امان لیکھی پہلے ہی دہلی پولیس کی جانب سے لمبی دلائل پیش کی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس معاملے میں غیر ضروری تاخیر نہیں کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں تاخیر کی وجہ سے دہلی تشدد کیس کی سماعت میں بھی تاخیر ہوئی ہے۔

گزشتہ 9 اکتوبر کو سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ پولیس کو تشدد پر قابو پانے کے لئے جامعہ یونیورسٹی میں داخل ہونا پڑا۔ 18 ستمبر کو سماعت کے دوران ، دہلی پولیس کی جانب سے اے ایس جی امان لیکھی نے جامعہ تشدد کی تحقیقات کو دہلی پولیس سے کسی اور ایجنسی میں منتقل کرنے کی مخالفت کی تھی۔ لیکھی نے کہا کہ یہاں ایک غیر قانونی بھیڑ تھی اور یہ کوئی عام بھیڑ نہیں تھی۔

لیکھی نے غیر قانونی بھیڑ پر طاقت کے استعمال سے متعلق فیصلے کی مثال دی۔ انہوں نے کہا تھا کہ پولیس غیرقانونی ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ پولیس کو بھیڑ کو ہٹانے کا حکم ملا ہے اور ہجوم تشدد کر رہا ہے، امن قائم کرنے کا سوال ہے اور امن قائم کرنے کے لئے کسی بھی طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

وہیں گزشتہ 28 اگست کی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ بے ہنگم ہجوم کے لئے پولیس کی مداخلت ضروری تھی۔ سماعت کے دوران درخواست گزاروں نے دہلی پولیس کی طرف سے سیل بند لفافے میں دی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کو دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔

امن لیکھی نے کہا تھا کہ پولیس نے اشتعال انگیزی کے باوجود صورتحال پر قابو پالیا۔ لیکھی نے کہا تھا کہ 13 دسمبر کو جامعہ یونیورسٹی کے گیٹ نمبر 1 پر دو ہزار افراد جمع ہوگئے اور پتھراؤ کرنا شروع کردیا۔ اس دوران نجی املاک کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا تھا کہ دہلی پولیس نے جو کچھ کہا ہے اس کو نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے کم و بیش کہا ہے۔

پولیس اپنی کارروائی سے لاعلم نہیں تھی بلکہ جائز بنیادوں پر مداخلت کی۔ مقامی رہنما بھیڑ کو بھڑکانے اور اشتعال انگیز نعرے لگارہے تھے۔ یہ نعرے اظہار رائے کی آزادی کا احاطہ نہیں کرسکتے ہیں۔ ہجوم لاٹھیوں اور پیٹرول بموں سے لیس تھا۔

گزشتہ 4 اگست کو سماعت کے دوران درخواست گزاروں کی جانب سے دہلی پولیس پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پولیس نے طلباء پر وحشیانہ سلوک کیا تاکہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں حصہ نہ لے سکیں۔

درخواست گزار کے وکیل کالن گونزالویز نے بھی عدالت کے روبرو دو سی ڈیز بھی پلے کر کے دکھا یا تھا۔

دوران سماعت گونزالویز نے پولیس توڑ پھوڑ کی آزاد تفتیش کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ طلباء نے پارلیمنٹ مارچ کا منصوبہ بنایا تھا جس سے پولیس خوفزدہ ہوگئی تھی۔ طلباء پر آنسو گیس کے گولے استعمال کیے تھے۔

جس میں ایک طالب علم کا ہاتھ ٹوٹ گیا، طالب علم کی آنکھ ختم ہوگئی۔ اس معاملے میں چار طلبا پر پورے واقعے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ گونزالیوز نے کہا کہ طلبا تنازعہ کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔

اس معاملے میں دہلی پولیس نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ جامعہ تشدد ایک منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ جامعہ تشدد کے الیکٹرانک شواہد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تشدد طلباء تحریک کی آڑ میں مقامی لوگوں کی مدد سے کیا گیا تھا۔

دہلی ہائی کورٹ آج جامعہ تشدد معاملے میں تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی درخواستوں پر سماعت کرے گا۔ اس سے قبل کی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ پولیس کو تشدد پر قابو پانے کے لئے جامعہ یونیورسٹی میں داخل ہونا پڑا تھا۔ اس معاملے میں چیف جسٹس ڈی این پٹیل کی سربراہی میں بنچ سماعت کرے گا۔

گزشتہ 6 نومبر کو سماعت کے دوران جب عدالت کو بتایا گیا تھا کہ تشار مہتا ایک اور معاملے میں مصروف ہے، تو درخواست گزار کی جانب سے سینئر وکیل کالن گونزالویس نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے میں اے ایس جی امان لیکھی پہلے ہی دہلی پولیس کی جانب سے لمبی دلائل پیش کی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس معاملے میں غیر ضروری تاخیر نہیں کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں تاخیر کی وجہ سے دہلی تشدد کیس کی سماعت میں بھی تاخیر ہوئی ہے۔

گزشتہ 9 اکتوبر کو سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ پولیس کو تشدد پر قابو پانے کے لئے جامعہ یونیورسٹی میں داخل ہونا پڑا۔ 18 ستمبر کو سماعت کے دوران ، دہلی پولیس کی جانب سے اے ایس جی امان لیکھی نے جامعہ تشدد کی تحقیقات کو دہلی پولیس سے کسی اور ایجنسی میں منتقل کرنے کی مخالفت کی تھی۔ لیکھی نے کہا کہ یہاں ایک غیر قانونی بھیڑ تھی اور یہ کوئی عام بھیڑ نہیں تھی۔

لیکھی نے غیر قانونی بھیڑ پر طاقت کے استعمال سے متعلق فیصلے کی مثال دی۔ انہوں نے کہا تھا کہ پولیس غیرقانونی ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ پولیس کو بھیڑ کو ہٹانے کا حکم ملا ہے اور ہجوم تشدد کر رہا ہے، امن قائم کرنے کا سوال ہے اور امن قائم کرنے کے لئے کسی بھی طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔

وہیں گزشتہ 28 اگست کی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ بے ہنگم ہجوم کے لئے پولیس کی مداخلت ضروری تھی۔ سماعت کے دوران درخواست گزاروں نے دہلی پولیس کی طرف سے سیل بند لفافے میں دی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کو دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔

امن لیکھی نے کہا تھا کہ پولیس نے اشتعال انگیزی کے باوجود صورتحال پر قابو پالیا۔ لیکھی نے کہا تھا کہ 13 دسمبر کو جامعہ یونیورسٹی کے گیٹ نمبر 1 پر دو ہزار افراد جمع ہوگئے اور پتھراؤ کرنا شروع کردیا۔ اس دوران نجی املاک کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا تھا کہ دہلی پولیس نے جو کچھ کہا ہے اس کو نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے کم و بیش کہا ہے۔

پولیس اپنی کارروائی سے لاعلم نہیں تھی بلکہ جائز بنیادوں پر مداخلت کی۔ مقامی رہنما بھیڑ کو بھڑکانے اور اشتعال انگیز نعرے لگارہے تھے۔ یہ نعرے اظہار رائے کی آزادی کا احاطہ نہیں کرسکتے ہیں۔ ہجوم لاٹھیوں اور پیٹرول بموں سے لیس تھا۔

گزشتہ 4 اگست کو سماعت کے دوران درخواست گزاروں کی جانب سے دہلی پولیس پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پولیس نے طلباء پر وحشیانہ سلوک کیا تاکہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں حصہ نہ لے سکیں۔

درخواست گزار کے وکیل کالن گونزالویز نے بھی عدالت کے روبرو دو سی ڈیز بھی پلے کر کے دکھا یا تھا۔

دوران سماعت گونزالویز نے پولیس توڑ پھوڑ کی آزاد تفتیش کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ طلباء نے پارلیمنٹ مارچ کا منصوبہ بنایا تھا جس سے پولیس خوفزدہ ہوگئی تھی۔ طلباء پر آنسو گیس کے گولے استعمال کیے تھے۔

جس میں ایک طالب علم کا ہاتھ ٹوٹ گیا، طالب علم کی آنکھ ختم ہوگئی۔ اس معاملے میں چار طلبا پر پورے واقعے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ گونزالیوز نے کہا کہ طلبا تنازعہ کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔

اس معاملے میں دہلی پولیس نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ جامعہ تشدد ایک منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ جامعہ تشدد کے الیکٹرانک شواہد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تشدد طلباء تحریک کی آڑ میں مقامی لوگوں کی مدد سے کیا گیا تھا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.