دہلی ہائی کورٹ آج جامعہ تشدد کیس کی تحقیقات کی مانگ کرنے والی درخواستوں پر سماعت کرے گا۔ اس سے قبل کی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ پولیس کو تشدد پر قابو پانے کے لئے جامعہ یونیورسٹی میں داخل ہونا پڑا۔ چیف جسٹس ڈی این پٹیل کی سربراہی میں بینچ اس عرضی پر سماعت کرے گی۔
گزشتہ 18 ستمبر کو سماعت کے دوران دہلی پولیس کی جانب سے اے ایس جی امن لیکھی نے جامعہ تشدد کی جانچ دہلی پولیس سے ہٹا کر دوسری ایجنسی کو سونپنے کو لے کر کر اعتراض کیا تھا۔
لیکھی نے کہا کہ یہاں ایک غیر قانونی بھیڑ تھی اور یہ کوئی عام بھیڑ نہیں تھی۔ انہوں نے کہا تھا کہ پولیس غیرقانونی ہجوم کو منتشر کرنے کے لئے طاقت کا استعمال کر سکتی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ پولیس کو ہجوم کو ہٹانے کا حکم ملا تھا اور ہجوم تشدد برپا کر رہا تھا۔ وہاں امن قائم کرنے کا سوال تھا اور امن قائم کرنے کے لئے کسی بھی طاقت کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
لیکھی نے کہا تھا کہ ہجوم تشدد کر رہا تھا اور پولیس کے حکم کے باوجود منتشر نہیں ہو رہا تھا۔
پولیس کو تشدد پر قابو پانے کے لئے یونیورسٹی میں داخل ہونا پڑا۔ امن لیکھی نے کہا تھا کہ ان کے علاوہ جن کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی ہے، وہ سب پی آئی ایل کے نام پر یہاں موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: چنئی کسٹم ٹیم نے 3 کلو سونا ضبط کیا
انہوں نے کہا تھا کہ صحیح چیز کے لئے کی جانے والی کارروائی سے پوچھ گچھ نہیں ہونی چاہئے۔ دہلی پولیس کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں بنتا ہے۔
وہیں گزشتہ 28 اگست کی سماعت کے دوران دہلی پولیس نے کہا تھا کہ بے ہنگم ہجوم کے لئے پولیس کی مداخلت ضروری تھی۔ سماعت کے دوران درخواست گزاروں نے دہلی پولیس کی طرف سے سربمہر لفافے میں دی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کو دیکھنے کا مطالبہ کیا تھا۔
امن لیکھی نے کہا تھا کہ پولیس نے اشتعال انگیزی کے باوجود صورتحال پر قابو پالیا۔ لیکھی نے کہا تھا کہ 13 دسمبر کو جامعہ یونیورسٹی کے گیٹ نمبر 1 پر دو ہزار افراد جمع ہوگئے اور پتھراؤ کرنا شروع کردیا۔ اس دوران نجی املاک کو نقصان پہنچا۔ انہوں نے کہا تھا کہ دہلی پولیس نے جو کچھ کہا ہے اس کو نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے کم و بیش کہا ہے۔
پولیس اپنی کارروائی سے لاعلم نہیں تھی بلکہ جائز بنیادوں پر مداخلت کی۔ مقامی رہنما بھیڑ کو بھڑکانے اور اشتعال انگیز نعرے لگارہے تھے۔ یہ نعرے اظہار رائے کی آزادی کا احاطہ نہیں کرسکتے ہیں۔ ہجوم لاٹھیوں اور پیٹرول بموں سے لیس تھا۔
گزشتہ 4 اگست کو سماعت کے دوران درخواست گزاروں کی جانب سے دہلی پولیس پر سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ پولیس نے طلباء پر وحشیانہ سلوک کیا تاکہ وہ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف مظاہروں میں حصہ نہ لے سکیں۔
درخواست گزار کے وکیل کالن گونزالویز نے بھی عدالت کے روبرو دو سی ڈیز بھی پلے کر کے دکھا یا تھا۔
دوران سماعت گونزالویز نے پولیس توڑ پھوڑ کی آزاد تفتیش کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ طلباء نے پارلیمنٹ مارچ کا منصوبہ بنایا تھا جس سے پولیس خوفزدہ ہوگئی تھی۔ طلباء پر آنسو گیس کے گولے استعمال کیے تھے۔
جس میں ایک طالب علم کا ہاتھ ٹوٹ گیا، طالب علم کی آنکھ ختم ہوگئی۔ اس معاملے میں چار طلبا پر پورے واقعے کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ گونزالیوز نے کہا کہ طلبا تنازعہ کرنے کے موڈ میں نہیں تھے۔
اس معاملے میں دہلی پولیس نے اپنے حلف نامے میں کہا ہے کہ جامعہ تشدد ایک منصوبے کے تحت کیا گیا تھا۔ دہلی پولیس نے کہا ہے کہ جامعہ تشدد کے الیکٹرانک شواہد سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تشدد طلباء تحریک کی آڑ میں مقامی لوگوں کی مدد سے کیا گیا تھا۔