2020-21 کےلیے منظور کردہ بجٹ میں بھارت کی 5 ٹرلین ڈالر کی معیشت کی خواہش کو پورا کرنے کےلیے کئی اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔
اس بجٹ میں آرزو مند بھارت کے خوابوں کی تکمیل کےلیے شعبہ صحت کی ترقی کو ایک اہم کڑی بتایا گیا ہے یہاں تک کہ 2019-20کے بجٹ کے مقابلے میں 2020-21کے بجٹ میں شعبہ صحت کےلیے رکھی گئی رقم کو 62,659کروڑ روپے سے بڑھا کر 65,011کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ شعبہ صحت کے بجٹ میں 4 فیصد اضافہ ہوا ہے حالانکہ عملاً یہ کوئی بڑھوتری نہیں ہے۔
نیشنل ہیلتھ اسکیم نامی مرکزی سرکار کی سب سے بڑی اسکیم ، جس پر کل رقم کا قریب نصف خرچ ہوتا ہے،کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہ کرتے ہوئے اسے33,400کروڑ روپے پر قائم رکھا گیا ہے۔ آیوشمان بھارت کے مرکزی سرکار کے فلیگ شپ پروگرام کے، پی ایم جے اے وائی (صحت بیمہ) اور ہیلتھ اینڈ ویلنس سنٹرس (ایچ ڈبلیو سی)، دو جزو ہیں۔ اس اسکیم کی کامیابی کےلیے آیوشمان بھارت کاپروگرام بہت اہم ثابت ہوا ہے لیکن 2020-21 کےلیے مختص رقم اور نظرِ ثانی شدہ تخمینہ اس اسکیم کی موثر عمل آوری کے امکانات کے ساتھ متصادم ہے۔
2020-21 کےلیے پی ایم جے اے وائی کےمجوزہ بجٹ کا تخمینہ 6,400کروڑ روپے کا ہے، اتنی ہی رقم گئے سال بھی اسکے لیے مختص رکھی گئی تھی لیکن اس اسکیم میں گئے سال محض 50فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔مجموعی طور دیکھا جائے تو دنیا کی سب سے بڑی صحت بیمہ اسکیم بن چکی پی ایم جے اے وائی کیلئے فی کس فی سال محض 128روپے کی رقم مختص ہوتی ہے۔دوسری جانب مرکزی سرکار کی دوسری صحت بیمہ اسکیم کو ، سنٹرل گورنمنٹ ہیلتھ اسکیم (سی جی ایچ ایس)،جو ملک کے مراعات یافتہ حلقہ کےلیے ہے، فی کس 8,700 روپے کے حساب سے رقم ملی ہے جس سے بجٹ کا یکطرفہ ہونا واضح ہوجاتا ہے۔ اپنے آغاز کے محض دو سال کے اندر پی ایم جے اے وائی کےلیے حیاتِ نو کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہوئے مجوزہ بجٹ میں نجی شعبہ کو سرمایہ کاری کےلیے راغب کرنے کی خاطر ”وائبلٹی فنڈنگ گیپ“کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ اقدام اس امید کے ساتھ کیا گیا ہے کہ اس سے معاشی طور پسماندہ اضلاع کی جانب سرمایہ کاری کا بہاو بڑھ جائے گا۔ بجٹ میں غیر ملکی طبی آلات پر ٹیکس (سیس) عائد کرنے کی جو تجویز ہے، امکان ہے کہ اس سے ملنے والی رقم کو بھی صحت کے اسی پروگرام پر لگایا جائے گا۔ صحت و تندرستی کا ایک اور پروگرام جو دو ایک سال قبل شروع کیا گیا تھا بھی سرکار کی قلیل توجہ پاتے دکھائی دے رہا ہے۔ چناچہ اس کے لیے گزشتہ سال کے بجٹ میں کوئی اضافہ نہ کرتے ہوئے1350کروڑ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے ۔
کیا بھارت، جو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے اور اب سے پانچ سال میں 5 ٹرلین معیشت بننے کا متمنی ہے، انسانی ترقی کے حوالے سے 130 ویں نمبر پر رہنے کا متحمل ہوسکتا ہے؟ اور کیا صحت، جو انسانی ترقی کا ایک اہم جزو ہے، کو اس حد تک نظرانداز کیا جاسکتا ہے کہ اسکے لئے مختص کی جانے والی رقم فقط افریقی ممالک کے بجٹ کے ساتھ مقابلہ کرسکے؟۔
شعبہ صحت کےلیے مرکز، جو جی ڈی پی کا فقط 0.4 فیصد دیتا ہے اور ریاستوں کی مشترکہ حصہ داری مجموعی گھریلو پیداوار (جی ڈی پی) کے فقط ایک فیصد سے کچھ زیادہ کے برابر ہے جو انتہائی قلیل ہے۔ حالانکہ ملک میں ٹیکس اور جی ڈی پی کا تناسب گذشتہ دو دہائیوں میں کئی گنا ہوگیا ہے لیکن اس دوران شعبہ صحت کےلیے مالیات کو مطلوبہ وسعت نہیں مل سکی ہے۔ جہاں ریاستی سرکاروں پر شعبہ صحت پر خرچہ کرنے کی ذمہ داری ہے وہیں مرکزی سرکاراس شعبہ کےلیے رقم فراہم کرنے کی، بہت نہ سہی مساوی، ذمہ داری رکھتی ہے۔
مرکزی سرکار کو چاہیئے کہ 2017 کی نیشنل ہیلتھ پالیسی کے تحت کئے گئے اس وعدے کو پورا کرنے کی کوشش کرے کہ جس میں 2025 تک شعبہ صحت پر جی ڈی پی کا 2.5 فیصد تک خرچ کرنے کی بات کی گئی ہے۔ اگر بھارت واقعی 5 ٹرلین کی معشیت بننے کا خواب پورا ہوتے دیکھنا چاہتا ہے تو پھر اسے یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صحت کے شعبہ کو زیادہ سے زیادہ توجہ ملنی چاہیئے۔ چناچہ معاشی ترقی سے صحت کا شعبہ ٹھیک تو ہوتا ہی ہے لیکن بہترین صحت کی معاشی ترقی میں حصة داری کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ایک پیداواری افرادی قوت اور صحت مند آبادی ہی معیشت کو تبدیل کرکے اسے نئی بلندیوں کی طرف لیجانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔