نائیڈو نے جمعہ کے انڈٰین ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے پوسٹ گریجویٹ اسکول کے جلسۂ تقسیم اسناد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے زراعت کے شعبے میں سائنسدانوں کی جانب سے کی جا رہی کوششوں کی تعریف کی اور کہا کہ سنہ 1949-50 کے دوران ملک میں اناج کی پیداوار پانچ کروڑ ٹن سے کچھ ہی زیادہ تھی جو اب بڑھ کر 28 کروڑ ٹن سے زیادہ ہو گئی ہے ۔
گندم کی پیداوار 10 کروڑ ٹن اور دھان کی پیداوار 10 کروڑ 15 لاکھ ٹن تک پہنچ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریکارڈ اناج کی پیداوار کے باوجود ملک میں خوراک کی قلت اور قلت تغذیہ کے مسائل در پیش ہیں، جو تشویشناک ہیں ۔
خوراک کے تحفظ کے ساتھ ساتھ غذا ئی تحفظ بڑھانے کی اپیل کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اناجوں میں پروٹین اور وٹامن کی مقدار بڑھانی ہوگی۔
انہوں نے فصلوں کی کم پیداوار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چھوٹے سے ملک ویت نام میں ہندوستان سے دھان گیا تھا جس کی پیداوردیکھیں یہاں کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ ہے ۔
مسٹر نائيڈو نے کہا کہ نہ صرف ملک بلکہ دنیا میں غذائی تحفظ یقینی بنایا جانا چاہیے۔ہندوستان بڑی آبادی والا ملک ہے جو اناج کے لئے درآمد پر منحصر نہیں رہ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں زراعت سے متعلق مسائل پر پارلیمنٹ میں حسب ضرورت بحث بھی نہیں کرتیں۔
انہوں نے نوجوان نسل کے موجودہ طرز زندگی میں تبدیلی لانے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کھانے پینے کی عادت ایسی ہونی چاہیے جس میں سبھی طرح کے اناجوں کو استعمال ہو جس سے جسم کی تغذیہ کی ضروریات پوری ہوسکے اور جسم صحت مند بن سکے۔ انہوں نے کہا کہ یوگا کسی مذہب سے وابستہ نہیں ہے جس کی وجہ سے اسے دنیا میں اختیار کیا گیا ہے۔ نوجوانوں کو جنک فوڈ کھانے سے احتراز کرنا چاہیے اور تغذیہ بخش غذا کا استعمال کرنا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے اور قدرتی آفات بڑھ رہی ہیں۔ ٹیکنالوجی کا استعمال لوگوں کی خوشحالی اور تحقیق کا استعمال زرعی پیداوار بڑھانے کے لیے کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں 85 فیصد زمین چھوٹے اور حاشیہ پر زندگی بسر کرنے والے کسانوں کے پاس ہے جنہیں ذہن میں رکھ کر تحقیق کی جانی چاہیے۔
نائب صدر نے کہا کہ روایتی زراعت کی جگہ انٹیگریٹڈ فارمنگ کو فروغ دیا جانا چاہیے جس سے کسان زراعت کے ساتھ ساتھ مویشی پروری، ماہی پروری اور پالیٹری بھی کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے زراعت کے احیا کے لئےکئی نئے منصوبے شروع کئے ہیں جن کا فائدہ کسانوں کو ضرور ہوگا۔