نئی دہلی: ہمارے نوجوانوں کا اقبال کے پیغام کی طرف متوجہ ہونا ناگزیر ہوگیا ہے تاکہ وہ اپنی خودی کو بیدار کریں انھوں نے قرآن مجید اور کلامِ اقبال کے مشترک پیغامات کے حوالے سے بصیرت، نگاہِ شوق، جذبِ باہمی اور جہدِ مسلسل جیسی اصطلاحات پر غور کرنے پر زور دیا ان خیالات کا اظہار اقبال اکیڈمی، انڈیا کے صدر ڈاکٹر سید ظفر محمود نے سینٹ اسٹیفنز کالج میں ادبی نشست بیادِ اقبال سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ کالج کے شعبہ اردو، فارسی اور ہندی کی بزمِ ادب نے اقبال اکیڈمی، انڈیا، کے تعاون سے اس نشست کا انعقاد کیا تھا۔
اس موقعے پر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر سید اختر حسین نے اس بات پر زور دیا کہ علامہ اقبال کے اردو اور فارسی کلام کو گہرائی سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے بارے میں ان کی تفہیم آج کے مذہبی علما سے مختلف ہے اور ان کی سیاسی سوجھ بوجھ آج کے سیاسی رہنماؤں سے الگ ہے۔ وہ ایک عالمی سطح کے شاعر اور فلسفی تھے جسے اُسی سطح پر سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہئ اردو کے سابق صدر پروفیسر محمد ذاکر نے اقبال کے تصورِ انسان پربات کرتے ہوئے کہا کہ انسان اپنے اندر صفاتِ الٰہی پیدا کرکے اپنے درجات بلند کرسکتا ہے اور وہ بندگی کی حدود میں رہتے ہوئے خودمختاری حاصل کرسکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ اقبال آدمی کو معاشی جانور سے زیادہ اخلاقی جانور سمجھتے تھے۔ اسی لیے وہ گوتم بدھ، نانک، چشتی اور رسولِ اکرمؐ کی پیروی کرتے ہیں۔
معروف ماہرِ اقبالیات اور دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر عبدالحق نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اقبال کا مطالعہ، مطالعہ کرنے والوں کو خصوصی اعزاز عطا کرتا ہے اور شخصیت سازی میں معاون ہوتا ہے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ اگر دنیا میں انسانی تعمیرات کے علاوہ تمام موجودات کے عجائبات کی فہرست سازی کی جائے تو ایک عجوبہ اقبال کا وجود بھی ہوگا کیوں اقبال جیسا دماغ انسانی تاریخ میں بے مثال ہے۔ فلسفے کو جاذب زبان میں منتقل کرنا ایک لاثانی کارنامہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں اقبال کتابِ حوالہ بن چکے ہیں۔ نشست کی نظامت کرتے ہوئے کالج کے شعبہئ اردو، فارسی و ہندی کے صدر ڈاکٹر شمیم احمد نے تعارفی کلمات میں کہا کہ اقبال اپنے کلام میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہیں اور انہیں اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے پر آمادہ کرتے ہیں اور زندگی میں اپنا ہدف متعین کرکے جہدِمسلسل کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر وہ ایک فلسفی تھے لیکن انھوں نے اپنے فلسفے کو نثر کے بجائے نظم کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا۔
مزید پڑھیں: نئی دہلی: علامہ اقبالؒ نے شاعری سے عوام کو بیدار کیا
Essay Competition in Lucknow عالمی یوم اردو کے موقع پر مضمون نویسی مقابلہ کا انعقاد
DU on Poet Iqbal Chapter دہلی یونیورسٹی کا نصاب سے علامہ اقبال کا باب ہٹانے کا اعلان
اس موقعے پر کالج کے طلبا و طالبات نے کلامِ اقبال بھی پیش کیا۔ ساشا نے نظم ’جاوید کے نام‘، مطیبہ بلال نے ’شکوہ‘، علما شمیم نے ’ساقی نامہ‘، گوہر مبارک بھٹ نے ’جبریل و ابلیس‘اور رؤف نے غزل ’پریشاں ہوکے میری خاک آخر دل نہ بن جائے‘ پیش کی۔ نشست کے اختتام پر ڈاکٹر شمیم احمد کی کتاب ’اقبال: شاعرِ شعلہ نوا‘ کا اجرا بھی عمل میں آیا۔ نشست میں ڈاکٹر ابھیشیک مشرا، ڈاکٹر عطیہ رئیس، ڈاکٹر صغیر اختر اور ڈاکٹر محمد شمیم کے علاوہ بڑی تعداد میں طلبا و طالبات نے بھی شرکت کی۔ ان میں بزمِ ادب کی صدر مطہرہ، نائب صدر آئرین، جنرل سکریٹری عائشہ اور خزانچی پاکیزہ کے نام خاص ہیں۔
یو این آئی