ETV Bharat / state

'شہریت ترمیمی قانون پوری طرح سے غیر منطقی' - professor tahir mahmood on caa and nrc

قومی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین اور لا کمیشن آف انڈیا کے سابق رکن پروفیسر طاہر محمود نے برسراقتدار حکومت کی پالیسیوں پر جم کر نکتہ چینی کی ہے۔

پروفیسر طاہر محمود
پروفیسر طاہر محمود
author img

By

Published : Dec 29, 2019, 9:50 PM IST

پروفیسر طاہر محمود نے تین پڑوسی ممالک کے مخصوص مذہبی اقلیتوں کو ملک (بھارت) کی شہریت دئیے جانے سے متعلق نئے بھارتی قانون کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'اس کے تحت ملکوں اور فرقوں دونوں کا انتخاب کسی خاص اصول یا منطق پر نہیں بلکہ سیاسی اور مذہبی مصلحتوں پر مبنی ہے۔'

انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر مشترک سرحدوں کو ملحوظ رکھا جائے تو بھارت کی سرحدیں پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ چین اور میانمار سے بھی ملتی ہیں۔ ان ممالک میں اقلیتوں کے بدنام زمانہ استحصال کو کیوں نظر انداز کیا گیا اور اگر اس قانون کو جنوبی ایشائی ممالک تک محدود رکھنا تھا تو بدھسٹ اکثریت والے بھوٹان اور سری لنکا اور ہندو اکثریت والے نیپال کو کیوں اس سے الگ رکھا گیا۔'

پروفیسر محمود نے مزید کہا کہ 'متنازعہ قانون کے تحت جن چھ مذہبی فرقوں کو شامل کیا گیا ہے، وہ ان تینوں ہی ملکوں میں جن تک یہ قانون محدود ہے اقلیّت میں ہیں اس لیے یہ قانون بنانا ہی تھا تو مخصوص مذاہب کا نام لینے کے بجائے مقامی اقلیتیں کی اصطلاح کا استعمال کرنا ایک زیادہ مہذب طریقہ ہوتا۔'

انھوں نے یہ بھی کہا کہ خاص مذاہب کی نشاندہی غیر ضروری تھی اور اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ اس سے ان ممالک کی کچھ دیگر اقلیتیں نئے قانون کی حدود سے باہر رہتی ہیں جن میں یہودی اور بہائی فرقوں کے علاوہ احمدیہ جماعت بھی شامل ہے جسے پاکستان کے دستور کے تحت غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔

پروفیسر طاہر محمود نے تین پڑوسی ممالک کے مخصوص مذہبی اقلیتوں کو ملک (بھارت) کی شہریت دئیے جانے سے متعلق نئے بھارتی قانون کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'اس کے تحت ملکوں اور فرقوں دونوں کا انتخاب کسی خاص اصول یا منطق پر نہیں بلکہ سیاسی اور مذہبی مصلحتوں پر مبنی ہے۔'

انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر مشترک سرحدوں کو ملحوظ رکھا جائے تو بھارت کی سرحدیں پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ چین اور میانمار سے بھی ملتی ہیں۔ ان ممالک میں اقلیتوں کے بدنام زمانہ استحصال کو کیوں نظر انداز کیا گیا اور اگر اس قانون کو جنوبی ایشائی ممالک تک محدود رکھنا تھا تو بدھسٹ اکثریت والے بھوٹان اور سری لنکا اور ہندو اکثریت والے نیپال کو کیوں اس سے الگ رکھا گیا۔'

پروفیسر محمود نے مزید کہا کہ 'متنازعہ قانون کے تحت جن چھ مذہبی فرقوں کو شامل کیا گیا ہے، وہ ان تینوں ہی ملکوں میں جن تک یہ قانون محدود ہے اقلیّت میں ہیں اس لیے یہ قانون بنانا ہی تھا تو مخصوص مذاہب کا نام لینے کے بجائے مقامی اقلیتیں کی اصطلاح کا استعمال کرنا ایک زیادہ مہذب طریقہ ہوتا۔'

انھوں نے یہ بھی کہا کہ خاص مذاہب کی نشاندہی غیر ضروری تھی اور اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ اس سے ان ممالک کی کچھ دیگر اقلیتیں نئے قانون کی حدود سے باہر رہتی ہیں جن میں یہودی اور بہائی فرقوں کے علاوہ احمدیہ جماعت بھی شامل ہے جسے پاکستان کے دستور کے تحت غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔

Intro:شہریت ترمیم قانون کے خلاف طلبا کا کنوینشن


Body:شہریت ترمیم قانون کے خلاف طلبا کا کنوینشن

بنگلور: آج اے. آئ. ڈی. ایس. آو (آل انڈیا ڈیموکریٹک اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن) کی جانب سے تنظیم کا ریاستی سطح کا کنوینشن منعقد کیا گیا جس میں شہر بنگلور کی اہم شخصیات نے شرکت کی.

کنوینشن میں طلبا کی کثیر تعداد موجود رہی جنہوں نے حال ہی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دیگر یونیورسٹیز میں طلباء پر امن پولیس سے ہوئے زیادتی کی پر زور مذمت کی.

اس کنوینشن میں شہریت ترمیم قانون، این. آر. سی و این. پی. آر کے متعلق بحث و مباحثہ کیا گیا. بحث کا مرکزی موضوع یہ ریا کہ بی. جے. پی کی برسر اقتدار مرکزی حکومت کے مسلمانوں کے خلاف شہریت ترمیم قانون کے متعلق اقدامات کو روکا جائے.

اس موقع پر آے. آی. ڈی. ایس. آو کے ذمیداران نے کہا کہ ملک میں جاری کئے جارہے غیر آئینی قوانین کے خلاف ایک مضبوط اندولن کھڑا کیا جائے.

کئی اہم شخصیات کی اس کنوینشن میں شرکت رہی، سبھی نے ایک آواز ہوکر سی. اے. اے اور این. آر. سی کو بائیکاٹ کرنے کی قرارداد منظور کی.

بائیٹس...
1. ابھے دیواکر، سیکرٹری، آے.آی.ڈی.ایس.او
2. ڈاکٹر اوما، رکن، اے. آی. ڈی. ایس. او
3. ششیکانت سینتھیل، آی. اے. ایس

Note... The video is being uploaded...


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.