پروفیسر طاہر محمود نے تین پڑوسی ممالک کے مخصوص مذہبی اقلیتوں کو ملک (بھارت) کی شہریت دئیے جانے سے متعلق نئے بھارتی قانون کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ 'اس کے تحت ملکوں اور فرقوں دونوں کا انتخاب کسی خاص اصول یا منطق پر نہیں بلکہ سیاسی اور مذہبی مصلحتوں پر مبنی ہے۔'
انہوں نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 'اگر مشترک سرحدوں کو ملحوظ رکھا جائے تو بھارت کی سرحدیں پاکستان اور بنگلہ دیش کے علاوہ چین اور میانمار سے بھی ملتی ہیں۔ ان ممالک میں اقلیتوں کے بدنام زمانہ استحصال کو کیوں نظر انداز کیا گیا اور اگر اس قانون کو جنوبی ایشائی ممالک تک محدود رکھنا تھا تو بدھسٹ اکثریت والے بھوٹان اور سری لنکا اور ہندو اکثریت والے نیپال کو کیوں اس سے الگ رکھا گیا۔'
پروفیسر محمود نے مزید کہا کہ 'متنازعہ قانون کے تحت جن چھ مذہبی فرقوں کو شامل کیا گیا ہے، وہ ان تینوں ہی ملکوں میں جن تک یہ قانون محدود ہے اقلیّت میں ہیں اس لیے یہ قانون بنانا ہی تھا تو مخصوص مذاہب کا نام لینے کے بجائے مقامی اقلیتیں کی اصطلاح کا استعمال کرنا ایک زیادہ مہذب طریقہ ہوتا۔'
انھوں نے یہ بھی کہا کہ خاص مذاہب کی نشاندہی غیر ضروری تھی اور اس لحاظ سے بھی غلط ہے کہ اس سے ان ممالک کی کچھ دیگر اقلیتیں نئے قانون کی حدود سے باہر رہتی ہیں جن میں یہودی اور بہائی فرقوں کے علاوہ احمدیہ جماعت بھی شامل ہے جسے پاکستان کے دستور کے تحت غیر مسلم قرار دیا گیا ہے۔