مچھلی کے استعمال کم کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں یہ دل کی بیماریوں کے لیے بے حد مفید ہے۔
مچھلی کھانے سے صحت کے فوائد کے بارے میں ملک میں بہت کم معلومات ہیں۔ جس کی وجہ سےاس کی کھپت بہت کم ہے۔ تقریباً 70 فیصد سے زائد ریاستوں میں، مچھلی کی کھپت ہر سال چھ کلو سے بھی کم ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایک سال میں ایک شخص کے لئے 12 کلو مچھلی کھانے کی سفارش کی ہے ۔ مجموعی طور پر فی شخص اس کی سالانہ کھپت 22.3 کلوگرام ہے۔
سنٹرل انسٹیٹیوٹ آف فریش واٹر ایکواکلچر (سي آئی ایف اے) نے قومی یوم ماہی پروری کے موقع پر ملک میں مچھلی سے متعلق تازہ ترین معلومات کا اشتراک کرتے ہوئے کہا ہے کہ آہستہ آہستہ سمندر اور دریا میں مچھلی کی پیداوار کی شرح کم ہو رہی ہے اور اس وقت تقریبا 60 فیصد مچھلیوں کی سپلائی ماہی پروری کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے مچھلی کی مانگ بھی بڑھ رہی ہے۔
جینیاتی طور پر تیار ’جینتی ریہو‘ تیار کرنے والے اس ادارے کا کہنا ہے کہ کئی ریاستوں میں پانی کافی مقدار میں دستیاب ہونے کے باوجود وہ ماہی پروری کا فائدہ نہیں اٹھا رہے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مچھلی کی مانگ کو ماہی پروری سے ہی پوری کرنی ہوگی ۔
ماہی پروری سے نہ صرف آمدنی بلکہ اس سے روزگار بھی ملتا ہے۔ ’جینتی ریہو‘ روایتی ریہو کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے بڑھتی ہے۔
تقریباً 32 برسوں کی مدت کے دوران اس ادارے نے تازہ پانی میں ماہی پروری کو لے کر بہت سے قابل ذکر کام کئے ہیں جن میں ’کیپٹیو بریڈنگ‘ ، 24 سے زائد پانی پر مبنی نسل، پورٹیبل فش چیري ماڈل، سستی ماہی غذا، بیماریوں کی روک تھام کے کٹ اور ادویات تیار کیا ہے۔
یہ ادارہ ریاستوں کے افسران، کسانوں اور ماہی پروری سے منسلک لوگوں کی مہارت کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتاہے۔
سي آئي ایف اے نے ماہی پروری کی جدید ٹیکنالوجی کی معلومات فراہم کرنے کے لئے ایک موبائل اپلی کیشن بھی بنایا ہے جس کے ذریعے نو اہم مچھلیوں کو سائنسی طریقہ سے پالنے کی معلومات حاصل جا سکتی ہے۔
ان مچھلیوں میں میجر کارپ، مائنر کارپ، تازہ پانی کی جھینگے ، کیٹ فش ، تازہ پانی کی موتی اور آرائشی مچھلیاں شامل ہیں۔