خیال رہے کہ ایوان میں طلاق ثلاثہ بل کی منظور کے بعد صدر جمہوریہ رام ناتھ کوند نے بھی مذکورہ بل کو منظوری دے دی ہے، جس پر مسلم پرسنل لا بورڈ مذکورہ بل کو سپریم میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے'۔
حکومت ایک سول معاملے کو جرائم کے زمرے میں لے آئی ہے، جس سے حکومت کا منشا صاف ظاہر ہوتا ہے، وہ یہ کہ مسلم سماج کے لوگوں کو پریشان کیا جائے'۔
انہوں نے کہا کہ' اس بل سے مسلم عورتوں کو کیا فائدہ ہوگا؟ اس کا اندازہ بل کو پڑھنے کے بعد خود لگا سکتے ہیں'۔ نمبر یک ملزم کو اس جرم کے بدلے میں تین برس قید کی سزا دی جائے گی، اسی دوران شو ہر لازم ہوگا کہ وہ اپنی مطعلقہ بیوی کا نان و نفقہ بھی برداشت کرے۔
اس بل میں کہا گیا ہے کہ بچے کی کفالت ماں کو دی جائے گی، لیکن ماں بچے کی کفالت کرنے میں ناکامیاب رہے، تو ایسے میں اس بچے کا کیا ہوگا؟
مذکورہ بل آرٹیکل 14 کا خلاف، اس بل کے ذریعے حکومت بورڈ میں مداخلت کر رہی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ' میں ایسی لاکھوں ہندو خواتین موجود ہے جو شادی کے بعد بھی تنہائی کی زندگی گزار نے پر مجبور ہیں، ان کے لیے حکو مت قانون سازی کیوں نہیں کرتی؟
یہ بل مسلم خواتین کے لیے نہیں بلکہ پرسنل لاء بورڈ میں مداخلت کے لیے لایا گیا ہے۔ لہذا ہم سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔